چاند نہ میرے آنگن اُترا

349

غزالہ خالد
بچے قدرت کا اَنمول عطیہ ہیں۔ رنگ برنگے کپڑے پہنے، اِدھر اُدھر تتلیوں کی مانند بھاگتے دوڑتے، شوروغل کرتے، شرارتیں کرتے، ان کی چہکاروں، چیخ پکار سے ہی گھر میں رونق ہوتی ہے، ہنگامہ ہوتا ہے، زندگی ہوتی ہے اور گھر صحیح معنوں میں گھر لگتا ہے، یہی گھر اگر بچوں کے بغیر ہو تو ویران اور اُداس مکان بن جاتا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس اَن مول عطیے سے نوازا ہے، لیکن یہ بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ دنیا میں ہر ایک کو سب کچھ نہیں مل جاتا‘ کسی کسی کے حصے میں محرومی بھی آتی ہے اور اسی کا نام دنیا ہے۔ دنیا کو ایک امتحان گاہ اسی لیے کہا گیا ہے کہ کچھ لوگ اگر اولاد دے کر آزمائے جاتے ہیں تو کچھ لوگوں کو اولاد جیسی نعمت سے محروم رکھ کر بھی آزمایا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی مرضی پر راضی رہنے والے نہ اولاد ملنے پر مغرور ہوتے ہیں اور نہ اولاد سے محرومی پر اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرتے ہیں یا لڑتے ہیں صرف صبر کرتے ہیں، ویسے تو بے اولادی مرد اور عورت دونوں کے لیے ایک کٹھن اور صبر آزما آزمائش ہوتی ہے لیکن مرد مضبوط قوت ارادی، بلند حوصلے اور قدرتی طور پر ذہنی جذباتی پختگی کے سبب حالات کا مقابلہ نسبتاً آسانی سے کرلیتے ہیں۔ روزگار کی مصروفیات، گھر سے باہر کی زندگی کی افراتفری، لوگوں سے ملنا جلنا انہیں تکلیف دہ سوچوں سے اور اپنی اس محرومی سے بچنے میں یا ان تکلیف دہ سوچوں کو جھٹکنے میں کافی مدد دیتا ہے۔ لیکن خواتین کے لیے یہ محرومی نہایت اذیت ناک ہو جاتی ہے۔ زیادہ تر خواتین گھروں ہی میں وقت گزارتی ہیں، لہٰذا ہر وقت منفی سوچوں اور اولاد کی محرومی کے حصار سے باہر نہیں نکل پاتیں۔ پھر معاشرے کا ماحول کچھ اس طرح کا ہے کہ کوئی اگر اس محرومی کو بھولنا بھی چاہے تو لوگ اس کو ایسا نہیں کرنے دیتے‘ اگر اولاد سے محروم کوئی خاتون اپنے ممتا کے جذبے سے مجبور ہو کر کسی کے بچے کو پیار سے گود میں اُٹھا لے تو ہمدردی کی آڑ میں ایسے ایسے جملے سننے کو ملتے ہیں جو جگر کے پار ہوجاتے ہیں۔ کئی ضعیف الاعتقاد اولاد والی خواتین تو بے اولاد عورتوں کو اپنے بچوں کے پاس بھی نہیں جانے دیتیں۔ اس طرح ان خواتین کے لیے یہ محرومی نفسیاتی پیچیدگیوں کا باعث بن جاتی ہے۔ ہمارے ملک میں لڑکیوں کی پیدائش کا صرف یہی مقصد سمجھا جاتا ہے کہ ان کے پیدا ہوتے ہی شادی کی فکر سوار ہوجاتی ہے اور شادی ہوتے ہی اولاد کی اُمید۔ خدانخواستہ اولاد نہ ہونے کی صورت میں دنیا والے انہیں جینے نہیں دیتے۔ عورت کو قصور وار سمجھا جاتا ہے۔ ہمدردی کی نظر سے دیکھا جاتا ہے‘ طرح طرح کے علاج ٹونے، ٹوٹکے بتائے جاتے ہیں۔ اگر ان سے بھی فائدہ نہ ہو تو بہت سی خواتین پیری فقیری کے چکر میں پڑ کر اپنا وقت اور پیسہ برباد کرتی ہیں اور ان کو وہاں لے جانے والی ان کی اپنی مائیں اور ساسیں ہوتی ہیں۔ اگر شادی کو چند سال گزر جائیں تو لوگوں کو اسلام میں چار شادیوں کی اجازت یاد آجاتی ہے‘ طرح طرح کی دل چیرنے والی باتیں سننے کو ملتی ہیں، کبھی کبھی تو رشتہ ازدواج ختم ہونے کا خطرہ تک ہوجاتا ہے۔ کوئی ان خواتین کے دل میں جھانک کر نہیں دیکھتا‘ کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ان کی تکلیف دہ باتیں اور غلط مشورے کسی کے دل پہ کیسا ستم ڈھا رہے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں دو اجنبی خواتین بھی جب ایک دوسرے سے ملتی ہیں تو دو چار جملے بولنے کے بعد ایک دوسرے کا نہ تو نام پوچھتی ہیں، نہ سماجی حیثیت، مال و دولت، زیور، جائیداد کے بارے میں کوئی سوال ہوتا ہے، یہ سب باتیں بعد میں ہوتی ہیں۔ ان کا ایک دوسرے سے پہلا سوال ہوتا ہے کہ آپ کے بچے کتنے ہیں؟ اور یہ سوال اولاد کی نعمت سے محروم خواتین کے لیے اذیت کا باعث بنتا ہے، زخم پھر سے ہرے ہوجاتے ہیں، کیوں کہ عورت کی ذات کی تکمیل اولاد سے ہی ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ’’بچے ایسی زنجیر ہوتے ہیں جو شادی کو مضبوطی فراہم کرتی ہے‘‘۔ عورت کو خدا نے ممتا کے جذبے سے سرشار کیا ہے۔ ایک ننھی منی معصوم بچی بھی گڑیوں سے کھیل کر انہیں سجا بنا کر ان کا خیال رکھ کر اسی جذبے کی تشکیل کر رہی ہوتی ہے۔ لیکن جب شادی کو ایک عرصہ گزرنے کے بعد بھی اس جذبے کی تسکین نہیں ہو پاتی تو عورت بے آب و رنگ اور لق ودق صحرا جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتی ہے، نامکمل پن اسے چین نہیں لینے دیتا، اکثر خیال آتا ہے کہ اگر خدا نے اولاد سے محرومی قسمت میں لکھ دی ہے تو کیا کیا جاسکتا ہے؟ ایسے میں اکثر جوڑے بچہ گود لینے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچتے ہیں‘ لیکن افسوس یہ ہے کہ ان میں سے نوے فی صد سے زائد جوڑے یہ چاہتے ہیں کہ انہیں ان کا کوئی خونی رشتے دار اپنا بچہ دینے پر راضی ہوجائے، اپنی اولاد کسی اور کے حوالے کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے۔ اس لیے زیادہ تر رشتے دار اس امتحان میں پورا نہیں اُترتے، خاص طور پر آج کے مادّہ پرست دور میں جب اپنی ملکیت کی معمولی سی چیز بھی کوئی کسی کو نہیں دیتا اولاد دینا تو بڑے دل گردے کی بات ہے۔ زیادہ تر جوڑے کسی غیر کے بچے کو یا کسی بے سہارا بچے کو گود لینے کی ہمت نہیں کرپاتے، میاں بیوی کے ذہن میں بہت سے خدشات ہوتے ہیں جو انہیں ایسا کرنے سے روکتے ہیں۔ لوگوں کی باتوں سے ڈر لگتا ہے، زیادہ تر لوگ خود میں وہ جرأت و حوصلہ نہیں پاتے اور اولاد سے محرومی کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر خاموش ہو کر بیٹھ جاتے ہیں۔ دنیا میں جو آیا ہے اسے ایک نہ ایک دن واپس بھی جانا ہے اور میاں یا بیوی میں سے کسی ایک کے جانے کے بعد اولاد کے بغیر زندگی اور بھی مشکل ہوجاتی ہے۔ ایک تنہا اور اذیت ناک بڑھاپا منتظر ہوتا ہے۔ اپنی زندگی کو بہتر بنانے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے، لہٰذا ہماری ایسی بہنیں جو اولاد جیسی نعمت سے محروم ہیں، جرأت و حوصلے کا سہارا لیں۔ سب سے پہلے اپنے شریک حیات کو راضی کریں اور تلاش شروع کریں‘ ہمارے ملک میں ہزاروں لاکھوں ایسے یتیم اور بے سہارا بچے ہیں کہ جن کو سہارے کی ضرورت ہے۔ یتیم خانوں میں، اسپتالوں میں، ایدھی ہومز میں اور اب ستم رسیدہ آزاد کشمیر میں سیکڑوں بچے ایسے ہیں کہ جن کا کوئی پُرسان حال نہیں۔ تھوڑی سی کوشش سے ان شاء اللہ آپ کی تلاش ثمر آور ثابت ہوسکتی ہے۔ آپ کے رشتے دار تو اللہ کے فضل و کرم سے اپنی اولاد کے سروں پر سلامت ہیں اور خدا انہیں ہمیشہ سلامت رکھے، ایسے بچوں کو ڈھونڈیں جو اپنے والدین کھو چکے ہیں یا ان کے والدین غربت، افلاس یا اپنی کسی بھی مجبوری کے سبب انہیں ہمیشہ کے لیے لاوارثوں کے جھولے میں ڈال کر غائب ہوگئے ہیں۔ ہر بچہ خدا کے ہاتھوں کا بنایا ہوا ہے حسین شاہکار ہے، اگر اس نے آپ کی کوکھ سے جنم نہیں لیا تو کوئی بات نہیں۔ کسی بے سہارا کو سہارا دیں۔ کسی بے گھر کو سائبان دیں۔ کسی یتیم و یسیر کو ماں باپ کا پیار دیں، یہ سوچیں کہ اپنے بچوں سے تو سب ہی پیار کرتے ہیں کسی غیر کو اپنا بنائیں اور خدا کے حضور سرخرو ہو کر جائیں، اگر خدا نے آپ کو اولاد کی دولت سے محروم رکھا ہے تو ہوسکتا ہے خدا یہ نیکی آپ کے حصے میں دینا چاہتا ہو، مشہور مقولہ ہے کہ ’’ہر انتظار کرنے والے کی آنکھ میں اُمید ہوتی ہے‘‘۔ اب یہ کوشش آپ کی ہونی چاہیے کہ اُمید ختم ہونے سے پہلے انتظار ختم ہوجائے۔ اپنی شفقت و محبت سے کسی کی زندگی بنادیں۔ یقین کریں آپ کی پرورش، تعلیم و تربیت اور نیکی رائیگاں نہیں جائے گی اور جہاں تک آپ کے خدشات کا تعلق ہے تو چلیں لگے ہاتھوں اس کے بارے میں بھی بات ہوجائے۔