پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے کراچی کو تباہ کردیا

149

جمعرات مورخہ 13 جولائی کے تمام ہی اخبارات میں حکومت سندھ کے حوالے سے دو خبریں نمایاں طور پر موجود ہیں، پہلی خبر میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ’’وفاقی حکومت کراچی سرکلر ریلوے میں رکاوٹیں پیدا کررہی ہے‘‘۔ دوسری خبر میں سندھ سرکار کے ہی وزیر اطلاعات و ٹرانسپورٹ سید ناصر حسین شاہ صاحب فرماتے ہیں کہ ’’کراچی میں ٹرانسپورٹ کے نظام میں بہتری کے لیے کام جاری ہے‘‘ اس وقت زمینی صورت حال یہ ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کی بلاشرکت حکومت ہے پچھلے الیکشن سے پہلے حکومت تو پیپلز پارٹی کی تھی لیکن ایم کیو ایم اور اے این پی بطور حلیف جماعتوں کے پیپلز پارٹی کی معاونت کررہی تھیں۔ ٹرانسپورٹ کا مسئلہ کراچی کے لیے ایک حساس ترین مسئلہ ہے۔ دور ایوبی میں مفاد عامہ کے چاروں شعبے (مواصلات، تعلیم، صحت اور بلدیہ) اپنے بام عروج پر تھے۔ اُس کے بعد ہر آنے والی جمہوری اور جمہوری کم آمریت نے مفاد عامہ کا بیڑا غرق کیا اور آج تک اسے تباہ و برباد کررہے ہیں۔ سندھ میں پیپلز پارٹی نے بالا رادہ اور شعوری طور پر کراچی کو تباہ اور مفلوج کرکے رکھ دیا ہے، سرکلر ٹرین کو سرے سے ختم کیا، لوکل ٹرین کو پہلے محدود کیا پھر اسے بھی بند کروادیا۔ پیپلز پارٹی کے جیالوں، ایم کیو ایم کے لاڈلوں اور اے این پی کے گوریلوں نے لوکل اور سرکلر ٹرین کے اسٹیشنوں پر قبضے کیے، سرکلر ریلوے کے ٹریک کو اکھڑوایا اور زمینوں پر قبضے کروائے اور سندھ کا وزیر اعلیٰ کو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق اپنے جرائم کو وفاقی کے سر منڈھ کر بری الذمہ رہنا چاہتا ہے۔ دوسری طرف سندھ کا وزیر ٹرانسپورٹ، ٹرانسپورٹ میں بہتری کی بات کررہا ہے گزشتہ دس سال میں ٹوٹکے برابر ٹرانسپورٹ میں بہتری لا نہ سکے، الیکشن 2018ء کی آمد سے قبل یہ کیا بہتری لائیں گے؟ لوگ کہتے ہیں کہ سندھ سے ٹرانسپورٹ اور صحت کی وزارت کو سرے سے ختم کردینا چاہیے، دھیلے کا کام نہیں کرتے، خواہ مخواہ خزانے پر بوجھ ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلز پارٹی نے آج تک کراچی کو تباہ و برباد ہی کیا ہے ان سے کیا شکوہ جب کہ کراچی کے ووٹوں سے منتخب ایم کیو ایم بھی اس بہتی گنگا سے مستفید ہوتی رہی ہے اس نے بھی اپنی پارٹنر شپ کے دوران کراچی کے ٹرانسپورٹ کے لیے کچھ نہیں کیا اور اہل کراچی کو ’’چنگ چی بھیڑیوں‘‘ کے حوالے کردیا۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور اے این پی سے خیر کی اُمید نہیں، اب اہل کراچی کو سوچنا ہوگا کہ کھائی اور دلدل سے کیسے نکلنا ہے۔
عمر محی الدین، میٹھا در کراچی