زین صدیقی
پاناما کا پنڈورا باکس کھلنے کے بعد سیاسی حالات تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں،شریف خاندان کے بارے میں جے آئی ٹی کی جو تفتیش سامنے آئی ہے،اس پر وزیر اعظم کو کہا جا رہا ہے کہ وہ صادق و امین نہیں رہے اور ان سے استعفے کا مطالبہ کیا جارہا ہے ۔وزیر اعظم نے عدالت عظمیٰ میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کو چیلنج کر دیا ہے۔ شریف خاندان نے جے ئی ٹی کی رپورٹ کو جانبدارانہ قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے،اگر نواز شریف نااہل ہوتے ہیں تون لیگ اس کے لیے تیار ہے اور اس نے نئے وزیر اعظم کے لیے چودھری نثار،ایاز صادق احسن اقبال،خواجہ آصف،انجینئر خرم دستگیر سمیت دیگر کئی رہنماؤں کے نام تجویز کیے ہیںجس سے لگتا ہے کہ ن لیگ تمام آپشن پر عمل کے لیے تیارہے۔
تحر یک انصاف کے سربراہ عمران خان اور اپوزیشن جماعتیں چیخ چیخ کر وزیر اعظم نوازشریف سے استعفے کا مطا لبہ کر رہی ہیں،عمران خان بہت بے تاب اور پر جوش ہیں کہ وہ کون سا لمحہ ہو گا،جب نواز شریف استعفا دیں گے تاکہ ا ن کی جدوجہد کو کوئی نام مل سکے اور ان کی روح کو قرار مل سکے، ان کے ساتھی ان کو مستقبل کے وزیر اعظم کے طور پر دیکھ رہے ہیں،بعض جماعتیں وزیر اعظم کے استعفا نہ دینے اور عدالت عظمیٰ سے نااہل قرار پانے کو سیاسی شہید ہونے سے تعبیر کر رہے ہیں۔
اقتدار اللہ کی امانت ہوتا ہے اور مقتدر فرد پر اس کی بھاری ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ امانت دار رہے، ملک میں صاد ق و امین کون ہے اس کا فیصلہ ہو نا ضروری ہے۔ یہ فیصلہ کسی کے اقتدار میں آنے یا عوامی عہدے پربراجمان ہو نے سے قبل ہونا چاہیے، کیونکہ جب کو ئی فرد اقتدار میں آتا ہے تو وہ اقتدار کواللہ کی امانت کے طور پر قبول کرتا ہے اور جب کو ئی فرد امانت میں خیانت کرتا ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کے ناپسندیدہ فعل کا مرتکب ہو تا ہے،وہ اس عہدے پر براجمان ہو نے کے لیے ملک سے وفادار رہنے اور اسی کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اور عوام کی خدمت کا حلف اٹھاتا ہے،لیکن افسوس کہ وہ اپنے حلف سے روگردانی کرکے ذاتی مفادات کو ترجیح دینا اپنا فرض اولین سمجھ لیتا ہے، وہ صداقت وامانت کے قریب سے ہی نہیں گزرا ہوتا لہٰذا وہ کیوں کر اس کا خیال رکھے گا۔
با نی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد سے اب تک کے سیاسی حالات بتاتے ہیں کہ ملکی سیاست میں کسی کا صادق و امین ہو نا محال ہے،چند ماہ قبل عدالت عظمیٰ نے پاناما کیس دوران سماعت میں اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ اگرارٹیکل 62اور 63 پر عمل کیا جائے تو امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے سوا کو ئی نہیں بچے گا۔ پی پی رہنما رحمان ملک بھی اپنی ایک پریس کانفرنس میں کہہ چکے ہیں کی وہ اور کوئی بھی آئین کے ارٹیکل 62 اور63 پر پورے نہیں اترتا،جاوید ہاشمی نے بھی کہا ملک میں کوئی صادق وامین نہیں ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ آج وہی لوگ صادق و امین ہونے یا نہ ہو نے سے متعلق انگلیاں اٹھا رہے ہیں جن کی اپنی ذات اخلاقی و مالی کرپشن میں ڈوبی ہو ئی ہے،حقیقت یہ ہے کہ آج اگر ملک کے سیاستدان، ارکان اسمبلی،بیوروکریٹس،ایک کلرک اور ایک پولیس اہلکار و افسر صادق و امین ہوتے تو یہ ملک دنیا کا خوشحال ترین ملک ثابت ہو سکتا تھا،ہمیں اس ناکامی کا اعتراف کرنا چاہیے۔
جے آئی ٹی کا بننا اور پھر منتخب وزیراعظم اوران کے خاندان کے خلاف کرپشن کی تحقیقات کرنا ملک میں تاریخ ضرور رقم کر رہا ہے، مگر اس حقیقت سے بھی انکارنہیں کیا جا سکتا کہ یہ احتساب کا یہ کو ئی مضبوط اور دیر پا حل نہیں ہے،اس عمل سے ظاہر ہوتا کہ آئندہ بھی جماعتیںایک دوسرے سے الجھتی رہیں گی،سیاسی دشمنیاں نکا لیں گی،دھرنے دیں گی اور لڑ جھگڑ کر اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد کرتی نظر آئیں گی اور اس سارے کھیل سے عوام کے مسائل اور ترقی کے اقدامات گہری کھا ئی میں گر جائیں گے۔
ملک کی سیاست میں عجیب وغریب کھیل جاری ہے، اس سے کسی کو انکار نہیں،نوازشریف کا بھی ہونا چاہیے،عمران خان کا بھی، پرویز مشرف کا بھی ہونا چاہیے، آصف زرداری کابھی، سرج الحق کا بھی ہونا چاہیے، مولانا فضل الرحمن کا بھی۔کسی کواس سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے۔یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ہرفرد جسے ذمے داری دی جا رہی ہو ذمے داری دیے جانے سے قبل اس کے صادق و امین ہو نے کے لیے کڑی جانچ ہو گی۔الیکشن میں کھڑا ہو نے والا امیدوار ہو یا ایک سرکاری ملازمت پر آنے والا فردصادق و امین ہونے سے متعلق کڑی جانچ کے بغیر دیانتدار فردکے آنے کی ضمانت نہیں دی جا سکتی،اس کے لیے منظم ادارہ بنایا جا سکتا ہے،اسمبلی میں بل لایا جاسکتا ہے،الیکشن کمیشن یہ کام کر سکتا ہے،ان اقدامات کے نتیجے میں جو بھی فرد صادق وامین نہ نکلے، اس کا ڈبہ گول ہونا چاہیے،اسے اس منصب پر پہنچنے سے روک دینا چاہیے،احتساب کا شفاف عمل بھی اسی وقت ممکن ہوگا جب احتساب کرنے والے صاق وامین ہوں گے اور پھراحتساب سچائی ودیانت کے ساتھ ہوگا تو ملک ترقی کرے گا اور قوم خوشحال ہوگی۔