شام میں امریکی فوجی مشن خطرات کی زد میں

115

منیب حسین
مشرق وسطیٰ کا اہم ملک شام گزشتہ 6 برس سے خانہ جنگی کا شکار ہے۔ ملک میں آمر حکمران بشارالاسد کی فوج اور عوامی انقلابی تحریک کی مسلح تنظیموں کے درمیان 6 برس سے جاری لڑائی نے دونوں ہی کو کمزور کردیا ہے۔ بشارالاسد نے اپنے ڈوبتے ہوئے اقتدار کو بچانے کے لیے روس، ایران اور لبنانی حزب اللہ سمیت کئی غیرملکی شیعہ ملیشیاؤں کا سہارا لیا ہوا ہے، تاہم اس کے لیے سب سے مضبوط سہارا روس ہے۔
دوسری جانب شامی حزب اختلاف کی مسلح تنظیمیں ہیں، جو مختلف دینی اور سیاسی نظریات کی حامل ہیں، اور گزشتہ 3 برس سے ایک دوسرے پر حملے کر کرکے نا صرف داخلی طور پر خود کو کمزور کرچکی ہیں، بلکہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر اپنی حمایت تقریباً کھوچکی ہیں۔ اس وقت بھی شام کے صوبے ادلب میں شامی حزب اختلاف کی 2 بڑی مسلح تنظیموں حرکت احرار الشام اور جبھۃ فتح الشام کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے۔
شام میں تیسری قوت کُرد ہیں، جو کئی دہائیوں سے ایران، عراق، ترکی اور شام کے کرد اکثریتی علاقوں پر مشتمل آزاد کردستان کا خواب دیکھتے ہیں۔ شام میں کرد جنگجوؤں کی سب سے بڑی تنظیم ’پی وائی ڈی‘ ہے۔ یہ تنظیم شام میں امریکا کی اتحادی ہے اور امریکا نے پی وائی ڈی کے زیرقیادت کچھ دیگر عرب اور کرد جنگجوؤں کو ملا کر ’شامی جمہوری فوج‘ کے نام سے ایک ملیشیا تشکیل دے رکھی ہے، جسے عالمی میڈیا کافی کوریج دیتا ہے۔
امریکا نے اسی شامی جمہوری فوج کے زیرقبضہ علاقوں میں اپنے فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں اور امریکی فوج کے خصوصی دستے کرد جنگجوؤں کو جنگی تربیت فراہم کر رہے ہیں۔ تاہم اس کے ساتھ شام میں عرصے سے امریکا کی خفیہ سرگرمیاں بھی جاری ہیں، جنہیں اب ٹرمپ انتظامیہ نے روکنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ البتہ شام میں امریکی فوج کی موجودگی، اڈے اور علانیہ سرگرمیاں جاری رہیں گے۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شام میں سی آئی اے کی اُن خفیہ سرگرمیوں کو فوری طور پر روکنے کا فیصلہ ہے، جو بشارالاسد کے مخالف مسلح گروہوں کو تعاون فراہم کرنے کے لیے شروع کی گئی تھیں۔ امریکی اخبار نے نام ظاہر کیے بغیر ایک امریکی اہل کار کے حوالے سے لکھا ہے کہ امریکا کے اس اقدام کا مقصد روس کے ساتھ روابط بہتر بنانا ہے۔ خیال رہے کہ ماسکو حکومت ایک طویل عرصے سے امریکا سے شام میں خفیہ سرگرمیاں بند کرنے کا مطالبہ کر رہی تھی۔یاد رہے کہ یہ خفیہ کارروائی 2013ء میں سابق امریکی صدر بارک اوباما کے دور میں شروع کی گئی تھی اور اس دوران شام کے جنوبی حصے کے کچھ مغرب نواز مزاحمت کاروں کو تھوڑے عرصے عسکری تربیت فراہم کی گئی تھی۔
دوسری جانب شام میں امریکا کے فوجی مراکز کو بھی خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ ترکی کی سرکاری نیوز ایجنسی اناطولیہ کی جانب سے شام میں امریکی فوجی مراکز کی تفصیلات عام کرنے پر امریکا پریشان ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ترکی کی جانب سے شام میں امریکی فوجی چوکیوں سے متعلق انکشاف کو ایک ’پُرخطر اقدام‘ قرار دیا ہے۔ پینٹاگون نے کہا ہے کہ ترکی کی سرکاری نیوز ایجنسی اناطولیہ کی جانب سے شام میں بہ ظاہر 10 امریکی چوکیوں کے مقامات کے انکشاف نے جنگ زدہ عرب ملک میں امریکی دستوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ پینٹاگون کے ایک ترجمان نے بدھ کی رات اپنے بیان میں کہا کہ داعش کے خلاف بین الاقوامی عسکری اتحاد کے دستوں کے بارے میں حساس معلومات کا اس طرح جاری کیا جانا نہ صرف ایک غیر ضروری خطرے کی وجہ بنا ہے، بلکہ اس سے ممکنہ طور پر داعش کے خلاف عسکری کارروائیوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
پینٹاگون کے ترجمان نے مزید کہا کہ ہم ان معلومات کے ذرائع کی انفرادی طور پر تصدیق تو نہیں کر سکتے، لیکن ہمیں اس بات پر گہری تشویش ہے کہ نیٹو میں ہمارے کسی قریبی اتحادی ملک کے حکام کی طرف سے دانستہ طور پر حساس معلومات کے اجرا کے ساتھ اتحادی فوجوں کو خطرے میں ڈال دیا جائے۔ پینٹاگون کی طرف سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان معلومات کے منظر عام پر لائے جانے کے بعد امریکا نے ترک حکومت سے باقاعدہ احتجاج کرتے ہوئے اسے اپنی تشویش سے آگاہ بھی کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ ترک سرکاری نیوز ایجنسی اناطولیہ نے منگل کے روز اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ شام کے شمال میں کرد ملیشیاؤں ’پی کے کے‘ اور ’پی وائی ڈی‘ کے زیرقبضہ علاقوں میں امریکی فوجی چوکیوں کی تعداد 10 تک پہنچ گئی ہے۔ اناطولیہ نے اپنی رپورٹ میں یہ بھی بتایا تھا کہ واشنگٹن نے شام میں 2 فوجی فضائی اڈے قائم کیے ہیں۔ ان میں سے پہلی ائربیس اکتوبر 2015ء میں شمال مشرقی صوبے حسکہ کے ضلع رمیلان میں قائم کی گئی تھی، جب کہ دوسری ائربیس مارچ 2016ء میں شمالی قصبے کوبانی کے جنوب میں خراب عشق نامی گاؤں کے قریب تعمیر کی گئی ہے۔
اناطولیہ نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ رومیلان ائربیس بڑی تنصیب ہے اور اس پر ہر طرح کے مال بردار طیارے اترسکتے ہیں، جب کہ خراب عشق ائربیس صرف فوجی ہیلی کاپڑوں کے اترنے کے لیے بنائی گئی ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خراب عشق درحقیقت ایک فوجی اڈا ہے، ائربیس نہیں۔ تاہم منگل ہی کے روز جرمنی کے روزنامہ بلڈ نے اپنی رپورٹ میں کوبانی کے قریب ایک اور امریکی ائربیس سے متعلق انکشافات کیے۔ بلڈ اخبار نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ کچھ سیٹلائٹ مناظر سے پتا چلا ہے کہ شام کے شمال میں کوبانی کے قریب ایک خفیہ امریکی ائربیس قائم کی گئی ہے، جو 1.9 مربع کلومیٹر کے علاقے پر پھیلی ہوئی ہے۔
بلڈ کی رپورٹ کے مطابق اس ائربیس کو کرد ملیشیا شامی جمہوری فوج کے ساتھ تعاون کے لیے ایک لاجسٹک مرکز کے طور پر بنایا گیا ہے، لیکن یہاں سی 130 اور سی 17 کارگو طیاروں کے علاوہ سی 17 گلوب ماسٹر جیٹ طیارے بھی اتر سکیں گے۔ جرمن اخبار کے مطابق اس خفیہ ائربیس کے محل وقوع کو بہت خفیہ رکھا گیا ہے اور اخبار نے اس کی آن لائن نقشوں میں غیر موجود تصاویر کو ’ٹیرا سرور کمپنی‘ سے خریدا ہے۔
دوسری جانب ایک شامی ویب سائٹ الرافد نے بدھ کے روز اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ شام میں اس وقت امریکا کے 8 فوجی اڈے ہیں۔ الرافد کی رپورٹ کے مطابق پہلا اڈا صوبہ حسکی کے دارالحکومت قامشلی کے مشرق میں رمیلان کے ہوائی اڈے پر واقع ہے۔ دوسرا اڈا قامشلی کے مغرب میں مبروکہ نامی گاؤں میں ہے۔ رپورٹ کے مطابق امریکا کا تیسرا فوجی اڈا صوبہ رقہ کے شہر عین عیسیٰ کے مغرب میں خراب عشق نامی گاؤں کے قریب لافارج سیمنٹ فیکٹری میں قائم کیا گیا ہے۔ چوتھا فوجی اڈا عین عیسیٰ کا ہے، جو شام میں امریکا کا سب سے بڑا فوجی اڈا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پانچواں اڈا کوبانی کے قریب رویاریا کی ائربیس ہے، جس کے حوالے سے تفصیلی انکشافات جرمن اخبار بلڈ نے کیے ہیں۔ چھٹا فوجی اڈا ترکی کی سرحد کے قریب تل ابیض میں اور ساتواں صوبہ حسکہ کے شمالی علاقے تل بیدر میں واقع ہے۔ جب کہ آٹھویں فوجی اڈے کی تعمیر جاری ہے۔ یہ وہ فوجی اڈے ہیں، جن کے قیام کا مقصد شام میں امریکا موجودگی کو طویل عرصے تک ممکن بنانا ہے۔
ان فوجی مراکز کی موجودگی کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ نے شام میں اپنی خفیہ سرگرمیاں بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے، تاہم ساتھ ہی جس تیزی سے ٹرمپ انتظامیہ شام میں مداخلت کے لیے اپنے عسکری وجود کو مستحکم کر رہی ہے، وہ خطے کے لیے نہایت تشویش ناک ہے۔