مظفر ربانی
قوم یہ راز معلوم کرنا چاہتی ہے کہ ۱۹۳۷ سے ۱۹۸۲ تک کچھوے کی رفتار سے چلنے والا کاروبار کس طرح حکومت کی دہلیز پار کرتے ہی چیتے کی رفتار سے دوڑنے لگا؟ یہ وہ راز جو میاں صاحب اور ان کا خاندان کسی کو بتانا نہیں چاہتا، بیٹی تو کہہ چکی ہے کہ روک سکتے ہو تو روک لو! یہ ذو معنی جملہ ہے کہ ہم تو اسی رفتار سے اپنا کاروبار بڑھاتے رہیں گے روک سکتے ہو تو روک لو۔
شاید میاں صاحب نے فیصلہ کر لیا ہے کہ حکومت جائے یا وزارت عظمیٰ وہ راز کسی حال میں نہیں بتانا ہے کہ دوران حکمرانی چند کروڑ کی جائداد اربوں ڈالر تک کیسے پہنچ گئی کیوں کہ وہ تو پہلے ہی چار سال مکمل کر چکے ہیں اور خیر سے پانچویں سال میں بھی داخل ہو گئے ہیں تو اب حکومت سے چمٹے رہنے کا زیادہ فائدہ بھی نہیں لیکن وہ راز اپنے سینے میں ہی رکھنا زیادہ بہتر سمجھا گیا۔
جے آئی ٹی بنا کر عدالت عظمیٰ نے شریف خاندان کو ایک ایسا نادر موقع فراہم کیا تھا جو پاکستان کی تاریخ میں کسی کو بھی نہیں دیا گیا تھا یہاں تک کہ ملک کے دولخت کرنے والوں پر اس عظیم سانحہ کا ذمے دار ٹھیرانے سے لے کر پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی کو محض توہین عدالت کیس میں اپنی وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے اور تیس سیکنڈ کی سزا نے ان کو گھر کا راستہ دکھلا دیا مگر یہ بھی پاکستان کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہوگا کہ پانچ میں سے تین جج اس بات پر تو متفق ہیں کی ہاں پاناما سے لیکر حدیبیہ اور جدہ سے لیکر لندن تک کی کمپنیاں فیکٹریاں اور ملیں اور بڑھتا چڑھتا کاروبار بغیر کسی مصدقہ ترسیلات زر (Notarized money trail) کے ہی ہو رہا ہے۔ پھر ان پانچ ججوں میں سے دو نے تو صاف صاف فیصلہ دے دیا کہ ملزم اب مجرم بن چکا ہے مگر قربان جائیے یہاں بھی یہی کچھ نظر آرہا ہے کہ سب کچھ ثابت ہونے کے باوجود پھر ایک اور موقع دے دیا جاتا ہے کہ جائو کہیں تو اپنی بے گناہی ثابت کردو۔ مگر جے آئی ٹی سے فائدہ اٹھانا تو دور کی بات اس کے وجود کو ہی چیلنج کیا جاتا رہا حالاںکہ اس کی پیدائش پر مٹھائیاں کھلائی جا رہی تھیں ۔ لیکن جو کچھ پوچھا جا رہا ہے اس پر بات کرنے کو کوئی تیار نہیں پھر ان کے زر خرید درباریوں نے ۶۰ دن تک آسمان سر پر اٹھائے رکھا لیکن موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا ایسا نالائق طالب علم جس کا فیل ہونا یقینی تھا مگر سپلی (supplement) کا موقع دے دیا گیا اس میں بھی پاس ہوتا نظر نہیں آرہا۔
ایک عام پاکستانی جس کی سرپرست حکومت ہی ہوا کرتی ہے یہ پوچھنے اور سوچنے پر مجبور نہیں کہ کیا اس کو بھی کبھی اتنے موقعے فراہم کیے جا سکتے ہیں جو ایک ’’بڑے‘‘ کو دیے جا رہے ہیں! بات قومی رازوں کی ہو رہی تھی، تو یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں کہ میاں صاحب کے سینے میں قومی راز موجود ہوں بے شک ہوںگے کیوںکہ حکمرانی کرتے انہیں کم و بیش پینتیس سال کا طویل عرصہ ہو چکا ہے اور بہت سے ایسے مواقع آئے ہوںگے جب کوئی نہ کوئی راز کی بات ان تک پہنچی ہوگی اور یہ بھی کوئی قابل اعتراض اور قابل مذمت بات نہیں کہ انہوں نے اپنے سینے میں قومی راز دبا رکھے ہیں مگر قومی راز ایک طرح قوم کی امانت ہوتے ہیں یہ بھی تسلیم کہ قومی رازوں کو طشت از بام نہیں کیا جاتا ہاں اتنا ضرور ہو سکتا ہے کہ قومی راز کہیں قومی خفیہ خانوں میں ضرور ہونے چاہئیں تاکہ کوئی اپنے سینے میں لیکر اس دنیا سے رخصت نہ ہو اور اس کے جانے کے بعد بھی یہ راز قوم کے کام آتے رہیں اور ذمے دار طبقے کو پالیسیاں ترتیب دینے میں معاون و مددگار ثابت ہوں لیکن اگر ان رازوں کو کسی کو دھمکانے یا عرف عام میں بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کیا جائے تو یہ قومی رازوں کو ذاتی مقاصد کے استعمال کے مترادف ہوگا جس کی کسی طرف سے پزیرائی ممکن نہیں۔ قومی راز وہ بھی ہو سکتے ہیں جو بیرونی قوتوں کے جائز ناجائز احکامات پر عمل درامد بعض اداروں اور افراد کی طرف سے قومی یکجہتی کو عدم استحکام سے دو چار کر کے اٹھائے گئے ہوں لیکن ایسے قومی راز تو میاں صاحب کے خلاف دوسروں کے سینوں میں بھی موجود ہوںگے جن کی بنا پر بار بار مسند حکمرانی ان کو سونپی جا رہی ہے ایسے راز تو زرداری صاحب کے سینے میں بھی ہوںگے لیکن ان سارے رازوں میں قومی وحدت استحکام قومی سلامتی کم اور بیرونی آقائوں کی خوشنودیاں زیادہ پنہاں معلوم ہوتی ہیں۔ حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ پورے تیس سال تک راز رہی مولانا آزاد کے تیس صفحے آزادی کے تیس سال تک وقت کی دھول میں دبے رہے اور ایسی بہت سے راز ہیں جو کبھی کہیں سے افشا ہو جائیں تو الگ بات ہے مگر عام طور پر یہ راز سینوں کے صندوق میں بند ہوکر قبر میں پہنچ جاتے ہیں۔ پاناما بھی ایک عرصے تک راز ہی تو تھا وہ قدرتی طور پر یا جس کو کہتے ہیں کہ جب برا وقت آتا ہے تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے کے مصداق جن بیرونی قوتوں پر میاں صاحب اور ہمارے دیگر سیکولر حکمراں و سیاست داں بھروسا کر رہے ہوتے ہیں ان کے راز ایک وقت تک تو وہ اپنے پاس رکھتے ہیں مگر مطلب پورا ہوتے ہی وہ دنیا کے سامنے بے لباس کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ بیرونی آقائوں سے کون کون سے معاہدے ہیں جن کی تکمیل کی یقین دہانی پر آپ کو ہر مشکل سے بچا کر بار بار حکمرانی کے تخت پر لا کر بٹھا دیا جاتا ہے وہ راز بھی قوم جاننا چاہتی ہے ان معاہدوں پر سے پردہ اٹھائیں جو آئی ایم ایف سے کیے ہیں اور بیرونی قرضوں کی تفصیلات سے بھی قوم کو آگاہ کیا جائے اور قرضوں سے حاصل کردہ اربوں روپے کا سرمایہ کہاں لگایا گیا اور اس سے کیا کمایا گیا اور پچھلا قرضہ اتارنے میں نئے قرضے نے کیا کردار ادا کیا؟ کھربوں روپے کی مقروض یہ قوم جاننا چاہتی ہے کہ کم از کم آپ کے ادوار میں جو قرضے لیے گئے وہ کیا انہی منصوبوں میں لگائے گئے اور ان کی تکمیل پر اس سے کیا کمایا گیا؟ ان رازوں سے پردہ کیوں نہیں اٹھاتے جن میں بیرونی سازشیں پنہاں ہیں۔ کیا آپ پاکستانیوں اور پاکستانی اداروں کو بلیک میل کر کے اور ڈرا دھمکا کر اپنے حق میں فیصلہ لینا چاہتے ہیں لیکن اب شاید بہت دیر ہو چکی اور پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا اب بلیک میل کرنے کا وقت نہیں اب بلیک کوٹھی جانے کا وقت آ ن پہنچا ہے اور مقتدر ادروں نے بھی قوم کی نبض پر ہاتھ رکھا ہوا ہے کہ قوم ان کی باریوں سے تنگ آ چکی ہے یہ راز قوم جاننا چاہتی ہے کہ آخر کس کو کیا ہدایات بیرونی اداروں سے جاری ہوتی ہیں پھر یکے بعد دیگرے ان کے مفادات کی تکمیل کے لیے حکومت کے مدار میں آخر کب تک بس یہی دو سیارے چکر کاٹتے رہیں گے یہ بھی تو راز ہی ہیں۔