حکمرانوتمہیں عافیہ کی فکر نہیں !تمہاری کون کرے گا؟

233

zr_M-Anwerپاناما اسکینڈل میں پھنس کر حکمران بھی پریشان ہیں۔ یقینا ان کی رات کی نیندیں اور دن کا سکون اجڑ گیا ہوگا۔ لیکن پھر بھی وہ اس قدر پریشان نہیں ہوںگے جیسے وہ معصوم ڈاکٹر اور اس کے گھر والے پریشان ہیں۔ نواز شریف کی بیٹی تو جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئی تھی تو آسمان سر پر اٹھالیا گیا تھا حالاںکہ مریم نواز کا ضمیر بھی اندر سے مطمئن ہی ہوگا بلکہ ہونا بھی چاہیے اور اللہ کا شکر بھی ادا کرنا چاہیے کہ وہ تو اپنے ملک اور اپنوں کے درمیان ہیں اور غیر معمولی اور اوقات سے بڑھ کر پروٹوکول بھی استعمال کررہی ہیں۔ حالاںکہ نہ تو وہ کوئی سائنس دان ہیں اور نہ ہی پروفیسر نہ مملکت کا کوئی اہم عہدہ ان کے پاس ہے اور نہ ہی قوم کی منتخب شخصیت ہیں۔
پریشانی اور تکالیف کیا ہوتی ہے وہ تو صرف تصور کرلیں تو ان کا رواں رواں کانپ اُٹھے، نا کردہ گناہوں کی سزا ایسی کہ جس کی کوئی اور مثال بھی تو نہیں ملتی۔ وہ بھی تو مریم جیسی ہے بیٹی ہے، اسی کی طرح کی بہن اور اسی کی طرح کی ماں بھی ہے۔ مگر فرق یہ ہے کہ مریم نواز ایک ایسے وزیراعظم کی بیٹی ہے جو تین مرتبہ ملک کے سب بڑے عہدے پر فائز ہونے کے باوجود لوگوں کے دلوں میں وہ جگہ نہیں بناسکا جو انہیں اب تک بنالینی چاہیے تھی۔ مگر یہ کیسے ممکن ہوتا۔ جو لوگ صرف اپنی ذات تک محدود رہتے ہیں اور دوسروں کے بار ے میں سوچنے تک کی بھی انہیں فکر نہیں ہوتی اور جب ان جیسوں کو اپنے وطن کے لوگوں کا احساس نہ ہو تو پھر ان کی بھی کوئی فکر نہیں کرتا۔ ایسے بے حس حکمرانوں کے لیے لوگوں کے دلوں سے دعا کے بجائے بددعائیں ہی نکلتی ہوںگی۔
قارئین یہ جو کچھ میں نے تحریر کیا ہے صرف ان تکالیف اور پریشانیوں کے تصورات میں کھو کر جو ان دنوں ڈاکٹر عافیہ صدیقی امریکا کی جیل میں برداشت کررہی ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ 82سال سزا بھگت رہی ہیں۔ امریکا جو اپنے آپ کو سپرپاور اور انسانی حقوق کا دعویدار کہتا ہے وہ اس قدر کمزور ہے کہ اس نے ایک پاکستانی بیٹی کو قید کیا ہوا ہے۔ یقینا امریکا کو اس عظیم خاتون سے ایسا کوئی خوف ہوگا تبھی تو اس نے پانچ دس نہیں بلکہ 82سال کی سزا دے کر قید کیا ہوا ہے۔ گزشتہ کئی سال سے ڈاکٹر عافیہ کی کوئی خبر بھی نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں، حیات بھی ہیں یا خدانخواستہ امریکی حکمرانوں کا ظلم برداشت نہ کرکے شہید ہوچکی ہیں۔ شہادت کی اطلاع بھی اگر مل جائے تو تمام پاکستانیوں اورعافیہ کے گھر والوں کو نہ صرف سکون مل جائے گا بلکہ ان کے سر فخر سے بلند ہوجائیں گے کہ ’’عافیہ ناکردہ گناہ کی سزا کاٹتے ہوئے اللہ کو پیار ی ہوگئی‘‘۔ لیکن افسوس کہ ان کے بارے میں کسی بھی قسم کی کوئی اطلاع نہیں۔ پاکستانی حکمران جو امریکی قاتل ریمنڈ ڈیوس کو بحفاظت امریکا بھیجنے کے لیے رات دن ایک کرکے خصوصی انتظام کرتے ہیں، انہوں نے عافیہ کی خیریت تک معلوم کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جھوٹی تسلیاں اور وعدے توکئی سال سے کیے جارہے ہیں لیکن افسوس کہ عملاً کچھ بھی تو نہیں کیا گیا۔
چند روز قبل مجھے ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ نے ایک خط لکھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک مظلوم بہن کی کانپتے ہاتھوں اور بہتے آنسوئوں کے درمیان لکھی گئی تحریر سب کے سامنے لائی جائے۔ اس خط کو من و عن اس کالم کا حصہ بنارہا ہوں تاکہ ڈاکٹر فوزیہ، ان کی والدہ اور بچوں پر گزرنے والے حالات کا آپ خود تصور کرسکیں اور کسی بھی طرح ڈاکر عافیہ کی رہائی کے لیے ڈاکٹر فوزیہ کی تحریک کا حصہ بنیں۔ یہ درخواست میں اس لیے بھی کررہا ہوں کہ ہمارے حکمران تو ان دنوں اپنے چلائے گئے ’’چکروں‘‘ کی لپیٹ میں ہیں۔ انہیں اپنی اور اپنے رشتے داروں کے سوا کسی کی فکر نہیں ہے۔ ڈاکٹر فوزیہ نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ:
محترم و مکرم جناب محمد انور
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
امید ہے مزاج گرامی بخیر ہوں گے۔ یہ میری دعا ہے اللہ آپ کو سلامت رکھے اور آپ کے قلم میں وہ انقلابی قوت بخشے جو میری بہن عافیہ جیسے مظلوموں کی داد رس بن سکے۔ میں آپ جیسے تمام کالم نگار اور رائے سازوں کی بے حد مشکور ہوں کہ قوم کی اس عظیم اور مظلوم بیٹی کی معصومیت اور قید بے گناہی کی روداد اور رہائی کے راستوں سے عوام کو روشناس کیا۔ میرے پاس الفاظ نہیں جن سے میں اپنے جذبات کا اظہار کرسکوں مگر میرے ربّ العزت کے پاس وہ رحمتیں اور برکتیں ہیں جن کی آپ پر نزول کی میں دعا گو رہتی ہوں۔
میں اپنی بہن اور قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی ’’جرم ِ بے گناہی‘‘ کی پاداش میں امریکی جیل سے رہائی اور وطن واپسی کے سلسلے میں آپ سے ایک مرتبہ پھر رابطہ کررہی ہوں۔ الحمدللہ، آپ کا قلم اور کالم عافیہ کی رہائی کے بار بار مواقع پیدا کرنے اور ٹیکساس کی کارزویل جیل میں ریلیف کا وسیلہ بنے ہیں۔ مورخہ 10 جولائی کو پاکستانی ذرائع ابلاغ میں ریمنڈ ڈیوس کے حوالے سے خبر شائع ہوئی ہے کہ ’’میں جھوٹ نہیں بول رہا، پاکستانی لیڈر بیان بدل رہے ہیں‘‘۔ 16 مارچ 2011ء میں پاکستانی قیادت نے ریمنڈ ڈیوس کو عدالتی کور دے کر اچانک ملک سے اس طرح فرار کرایا تھا کہ پاکستانی فضائی حدود سے باہر نکلنے پر قوم کو اس کے ملک سے چلے جانے کی خبر ملی تھی۔ 6 سال کے طویل عرصہ کے بعد اس سال 2017 ء میں ریمنڈ ڈیوس کی کتاب ”The Contractor” منظر عام پر آئی ہے۔ جس میں ریمنڈ نے اپنی رہائی میں کردار ادا کرنے والی سول اور عسکری قیادت کے کردار کو جس طرح بے نقاب کیا ہے اس کی تفصیلات پڑھ کر ہر صاحب ضمیر شخص کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔ اگر ریمنڈڈیوس کی رہائی کے بدلے قوم کی بے گناہ بیٹی ڈاکٹر عافیہ کو باعزت طور پر وطن واپس لایا جاتا تو ریمنڈڈیوس کے پاس کتاب لکھنے کے لیے کوئی مواد نہ ہوتا اور پاکستانی قوم کی اس طرح جگ ہنسائی نہ ہوتی۔
2016ء میں امریکی انتظامیہ اور صدر بارک اوباما عافیہ کو باعزت طور پر پاکستان کو دینے پر آمادہ تھے بس ذرا سی اخلاقی جرات اور سیاسی بصیرت کی ضرورت تھی۔ عافیہ کے امریکی وکلا اسٹیون ڈاہنز اور کیتھی مینلے سے امریکی انتظامیہ نے خود رابطہ کرکے صدارتی معافی کے سلسلے میں صدر مملکت یا وزیراعظم پاکستان کی جانب سے ایک خط کا مطالبہ کیا تھا کیوںکہ پاکستانی شہری ہونے کی وجہ سے اوباما حکومت پاکستان کی باضابطہ درخواست کے بغیر عافیہ کو رہا کرنے کا اختیار نہیں رکھتے تھے۔ اس وقت حکام نے ہمیں یہ کہہ کر دلاسا دیا کہ جہاںآپ کے خاندان نے14 سال کی طویل مدت تک صبرو تحمل سے کام لیا ہے ملک اور قوم کی خاطر شکیل آفریدی کے تبادلے میں عافیہ کی واپسی کے کچھ انتظار کی اور قربانی دے دیں۔
شکیل آفریدی کی رہائی کے لیے معاملات طے کرنے کے لیے حکومت پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے طارق فاطمی اور وزیرخزانہ اسحاق ڈار امریکا کا دورہ کرچکے ہیں۔ جس کی تفصیلات عالمی اور ملکی ذرائع ابلاغ میں آچکی ہیں۔ امریکی حکام 2011 ء میں ریمنڈ ڈیوس کے بدلے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو رہا کرنے کے لیے تیار تھے۔ 2016ء میں امریکی صدارتی معافی کے ذریعے عافیہ کی رہائی کا ایک انتہائی آسان، نادر اور سنہرا موقع مسلم لیگ ن کی حکومت گنوا چکی ہے۔ اس سال 2017ء میں امریکی مطالبے پر شکیل آفریدی کی رہائی کے معاملات بیک ڈور چینل پر طے کیے جارہے ہیں۔ جس کا اظہار امریکی حکام تو بلاجھجک کرتے ہیںجب کہ پاکستانی حکام عافیہ کی وطن واپسی کے معاملے میں شرمناک رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ عافیہ کی باعزت وطن واپسی کے بغیر ریمنڈ ڈیوس کی طرح شکیل آفریدی کی رہائی اقوام عالم میں ملک اور قوم کے لیے انتہائی ذلت و رسوائی کا سبب بنے گی اور یہ بھی یاد رہے کہ قدرت بھی بار بار مواقع عطا نہیں کرتی بلکہ گرفت کرتی ہے۔ بے شک تیرے ربّ کی پکڑ بڑی شدید ہے۔ (البروج)۔
محترمی! آپ سے استدعا ہے کہ اس اہم اور نازک موقع پر قوم اور امت مسلمہ کی مظلوم بیٹی ڈاکٹر عافیہ کی وطن واپسی کے لیے حکمرانوں، اپوزیشن، سیاسی و عسکری قیادت اور ریاستی اداروں کو ان کی دینی، ملی اور آئینی ذمے داریوں کا احساس دلائیں تاکہ ریمنڈڈیوس کی رہائی جیسی شرمناک ذلت سے ملک اور قوم کو ایک مرتبہ پھر دوچار نہ ہونا پڑے۔ آپ کی یہ کاوش دنیا میں عزت و افتخار اور آخرت میں نجات اور اجر عظیم کا باعث بنے گی۔ ان شاء اللہ
آپ کے تعاون اور جواب کی منتظر
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی (نیورولوجسٹ، ماہر ایپی لیپسی)