رباط کی پہلی اسلامی سربراہ کانفرنس میں، مسجد اقصیٰ کے تحفظ کے لیے مسلم سربراہوں کا جذبہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا اور القدس کو اسرائیل کے تسلط سے آزاد کرنے کے لیے مسلم اتحاد کا لاجواب عزم تھا۔ لیکن سربراہ کانفرنس شروع ہونے سے پہلے ہندوستان کی وجہ سے کانفرنس میں رخنہ پیدا ہوگیا۔ سعودی عرب کے شاہ فیصل کا اصرار تھا کہ کانفرنس میں ہندوستان کو بھی شریک کیا جائے۔ دلیل یہ تھی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی کثیر تعداد ہے اور خلافت کی تحریک میں ہندوستان کے مسلم رہنمائوں نے اہم تاریخی کردار ادا کیا تھا۔ اس تجویز کے تحت اس وقت یہ طے ہوا تھا کہ مراکش میں ہندوستان کے سفیر گر بچن سنگھ۔ ہندوستان کے وفد کی قیادت کریں گے۔ پاکستان کے صدر یحییٰ خان نے بھی شاہ فیصل کی تجویز کی حمایت کی تھی۔ لیکن اسی رات کو گجرات میں احمد آباد میں خونریز مسلم کُش فسادات کی خبر آئی۔ رباط میں موجود پاکستانی صحافیوں نے صدر یحییٰ کو یہ پیغام بھجوایا کہ ان حالات میں ہندوستان کی کانفرنس میں شمولیت سے پاکستان میں عوامی ناراضی ان کے لیے سیاسی پریشانی کا باعث بنے گی۔ یہ پیغام ملتے ہی رات گئے صدر یحییٰ نے پاکستانی صحافیوں سے کہا کہ وہ صبح سویرے رباط سے باہر تونس کے صدر بورقیبہ کے بنگلے پر آجائیں۔ پاکستانی صحافی جب صبح سویرے بنگلے پر پہنچے تو صدر یحییٰ خان نے بتایا کہ انہوں نے، ہندوستان کی شرکت کے خلاف کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کا بائیکاٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس خبر کے عام ہوتے ہی ایک بحران پیدا ہوگیا اور اس دوران مراکش کے شاہ حسن، شاہ فیصل، اردن کے شاہ حسین کا یحییٰ خان کو منانے کے لیے آمد کا تانتا بندھ گیا۔ لیکن یحییٰ خان اپنے فیصلہ پر اٹل رہے اوراس کا خطرہ پیدا ہوگیا کہیں کانفرنس ہی نہ ٹھپ ہو جائے۔ آخر کار یہ طے ہوا کہ کانفرنس میں، ہندوستان محض مبصر کی حیثیت سے شریک ہو۔ اتفاق سے ان دنوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عبد العلیم مراکش کے دورے پر آئے ہوئے تھے فوراً ان کی قیادت میں ہندوستان کا وفد ترتیب دیا گیا اور اس وفدنے کانفرنس کے افتتاحی اجلاس میں مبصر کی حیثیت سے شرکت کی۔
رباط کی سربراہ کانفرنس میں عالم اسلام کے اتحاد اور مسلمانوں کے تاریخی ورثہ اور اقتصادی اور سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے مستقل اسلامی تنظیم کے ادارے کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ جو پچھلے چند برسوں تک فعال رہا، اس کے بعد اس کا کوئی نام لیوا نہیں رہا۔
اب پچھلے دو ہفتوں سے مسجد اقصیٰ کے دروازے پر میٹل ڈیکیٹرز کی تنصیب کے خلاف فلسطینیوں کے احتجاج اور مسجد کے باہر نماز جمعہ کی ادائیگی پر نمازیوں اور اسرائیلی فوج کے درمیان جھڑپوں میں تین فلسطینی نوجوانوں کی شہادت پر اسلامی کانفرنس کی تنظیم کی خاموشی عجیب و غریب لگتی ہے خاص طور پر اس امر کے پیش نظر کہ اڑتالیس سال قبل مسجد اقصیٰ میں آتش زدگی پر رباط کی پہلی سربراہ کانفرنس میں جس شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا تھا۔ گزشتہ جمعہ کو ہزاروں فلسطینیوں نے مسجد اقصیٰ میں جا کر نماز اد کرنے کے بجائے حرم الشریف کے احاطہ کے باہر نماز ادا کی۔ اس موقع پر اسرائیلی فوج، مشین گنوں، دستی بموں، اشک آور گیس اور آبی توپوں سے لیس ایسے کھڑی تھی کہ جیسے جنگ کے مورچے پر دشمن کا سامنا ہے اور بس اشارے کی دیر ہے، نمازیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جائے گا۔ اور ہوا یہی تین فلسطینی نوجوان ہلاک اور ڈیڑھ سو فلسطینی زخمی ہوگئے۔ اسرائیلی فوج نے فلسطینی اسپتال پر بھی دھاوا بول دیا تاکہ زخمی فلسطینیوں کا علاج نہ ہونے پائے۔
نیتن یاہو کی حکومت نے حرم الشریف کے احاطہ کے سامنے میٹل ڈیٹیکٹر کی تنصیب کے سلسلے میں بہانہ پچھلے دنوں احاطہ کے باہر اسرئیلی پولیس کے دو سپاہیوں کے قتل کے بعد سیکورٹی کا بنایا ہے لیکن دراصل ان کا مقصد حرم الشریف کے احاطہ کے باہر اپنا قبضہ جمانا ہے اسی طرح جس طرح یہودیوں کی بستیوں کی تعمیر کے ذریعے ارض فلسطین پر قبضہ جمایا گیا ہے۔ اس کا مقصد فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ میں نمازکی ادائیگی سے بھی روکنا ہے اور یہودیوں کے اس گروپ کو شہہ دینا ہے جو اپنے آپ کو ٹیمپل ماونٹ وفا دار کہلاتے ہیں۔ 1990میں اس گروپ نے حرم الشریف کے احاطہ میں یہودی عبادت گاہ کا سنگ بنیاد رکھنے کی کوشش کی تھی کیونکہ یہودیوں کا عقیدہ ہے کہ گنبد صخرا کے نیچے یہودیوں کی عبادت گاہ تھی جو مسمار ہو گئی تھی، یہودی اس عبادت گاہ کے کھنڈرات کی بازیابی کے لیے حرم الشریف کی اس پہاڑی کو کھودنا چاہتے ہیں۔ حرم الشریف کے احاطہ میں یہودی عبادت گاہ کی سنگ بنیاد رکھنے کی کوشش کے دوران جھڑپوں میں 20 فلسطینی شہید ہو گئے تھے۔
اس وقت جب کہ مسجد اقصیٰ کا بحران سنگین صورت اختیار کر گیا ہے، فلسطینی اپنے آپ کو یک و تنہا محسوس کرتے ہیں۔ عالم اسلام اپنے داخلی انتشار کا شکار ہے۔ ایک طرف یمن، سعودی عرب کے اتحادیوں کے حملوں میں گھرا ہوا ہے اور یمن کی بندرگاہوں پر امریکی ناکہ بندی کی وجہ سے خوراک کی شدید قلت اور ہیضہ کی تباہ کن وبا میں گرفتار ہے۔ دوسری جانب سعودی عرب اور اس کے اتحادی، قطر کے ساتھ معرکہ آرائی پر تلے بیٹھے ہیں، جو فی الحال ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔ ادھر شام میں بشار الاسد کا تختہ الٹنے کے لیے خانہ جنگی کا سلسلہ برابر جاری ہے، جس میں مشرق وسطیٰ کے متعدد ممالک الجھے ہوئے ہیں۔ عراق میں موصل میں داعش کی شکست کے بعد شہر میں گھرے ہوئے شہریوں کو جس قتل و غارت گری اور ظلم و ستم اور ایذا رسانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کی وجہ سے فلسطینیوں کے بحران کے بارے میں سوچنے کی کسی کو فرصت نہیں۔
فلسطینیوں کو غرب اردن کے فلسطینی سربراہ محمود عباس کے رویہ پر بھی سخت تعجب ہے۔ عین اُس وقت جب مسجد اقصیٰ کا بحران شروع ہوا تھا وہ چین کے چار روزہ دورہ پر چلے گئے، انہوں نے مسجد اقصیٰ کے سامنے فلسطینیوں کی شہادت پر افسوس کا تو اظہار کیا لیکن نہایت دبے دبے الفاظ میں۔
فلسطینیوں کی سمجھ میں یہ بات بھی نہیں آتی کہ دہشت گردی کے خلاف تو سعودی عرب نے اسلامی فوجی اتحاد قائم کیا ہے لیکن ان فلسطینیوں کو جو اسرائیل کی ریاستی دہشت گردی کا سامنا کر رہے ہیں اس سے انہیں نجات دلانے کے لیے اس اتحاد کو بروئے کار نہیں لایا جارہا ہے۔ ان حالات میں بے بس اور بے کس غم گسار مسلمان یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ ’’اک دیوار گریہ بنائو کہیں‘‘۔