کے الیکٹرک کے خلاف بھی جے آئی ٹی بنائی جائے، حافظ نعیم الرحمان

364

تسوید…) منیر عقیل انصاری )
حافظ نعیم الرحمن ،کے الیکٹرک نے کراچی کے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے اس کوبھاگنے کا موقع نہ دیا جائے اس کے خلاف بھی جے آئی ٹی تشکیل دی جائے اور 12سال کا فارنزک آڈٹ کیا جائے۔فیول ایڈجسٹمنٹ جعلی ہے جس کا بوجھ عوام پر پڑتا ہے۔ عوام کو بتایا جائے کہ کے الیکٹرک نے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن میں کیا بہتری کی ہے۔ ہر ماہ بلوں میں ناجائز رقم صارفین سے وصول کی جاتی ہے۔ فیول ایڈجسٹمنٹ جعلی ہے جس کا بوجھ عوام پر پڑتا ہے۔ کے الیکٹرک جو خسارے میں تھی اب ہر سال اربوں روپے منافع کمارہی ہے اور اس کی آمدنی میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے مگر صارفین کو کیامل رہا ہے اس کا کوئی جائزہ نہیں لیتا؟ابھی حال ہی میں نیپرا(نیشنل الیکٹرک پاور ریگو لیٹری اتھارٹی) نے چیکنگ شروع کی جس پر لوڈشیڈنگ میں کمی ہوئی۔ نیپرا نے جرمانہ عائد کیا مگر وصولی کا بندوبست نہیں کیا گیا۔ حالیہ بارش کے پہلے قطرے کے ساتھ ہی کراچی کے 70فیصد علاقے میں بجلی چلی گئی یہ کیسا نظام ہے؟ہمیں بتایا جائے کے الیکٹرک نے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن میں کیا بہتری کی ہے۔ نیپرا کے الیکٹرک کے خلاف کوئی کردار ادا نہیں کررہی ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ کے الیکٹرک کے ٹیرف میں کسی صورت اضافہ نہ کیا جائے بلکہ اس میں کمی کی جائے۔ افسوس کی بات ہے نیپرا کے فیصلے کی وجہ سے کے الیکڑک نے اپنے ٹیرف میں اضا فہ کیا ہے،یہ ٹیرف غریبوں اور متوسط طبقوں کا ٹیرف نہیں ہے۔ ایک سے 50اور0 30یونٹ استعمال کرنے والے صارفین سب میں آپ نے اضافہ کیا ہے۔ اس کے جواب میں جو بات کے الیکڑک کی جانب سے کہی جائیگی کے ہمارا ٹیرف یونیفائیڈ ٹیرف سسٹم ہے۔ لیکن ہمارے پاس جو بل موجود ہے اس میںواضح فرق موجود ہے۔اگر نمبر آف یونٹس 2015کے جنوری، فروری، جون یا جولائی میں کسی ایک میٹر کے 3سو تھے یا ساڑھے 3سو تھے ۔ اور اگر ساڑھے 3سو ہی 2016اور 2017میں ہے تو اس کے بل چا رجز میں بہت بڑا فرق موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کے الیکٹرک کا یہ ایک گورکھ دھندا ہے۔ جس کو بہت زیادہ تفصیل میں جاکر نیپرا یا ٹیکنیکل لوگ دیکھ سکتے ہیں۔ اور جس اتھارٹی کا کام ہے کہ کراچی کے عوام سے کس طرح سے پیسے چھینے جارہے ہیں وہ آپ لوگوں کو چیک کرنا چاہیے۔ کراچی کا ایک عام صارف اس کو کبھی پکڑ ہی نہیں سکتا ہے۔ جس طرح سے کے الیکٹرک ہم سے پیسے چارج کرتا ہے یہ کوئی سیاسی بات نہیں ہے یہ ایسی بات ہے کہ جس کا واضح طور پر کراچی کے ڈھائی کروڑ لوگ سا منا کررہے ہیں۔ اورجو کے الیکڑک کے 26لاکھ صارفین ہیں ان کو یہ مسئلہ درپیش ہے ہمارے پاس ہر مہینے جو بل آتا ہے اس میں ہمیں معلوم نہیں ہے کہ۔ نہ جانے کتنے پیسے ہم سے ناجائز وصول کررہے ہیں۔ کچھ ہمیں معلوم نہیں ہے۔ جس طرح آپ لوگوں نے میٹر رینٹ چا رجز، ڈبل بینک چارجز اور فیول ایڈجسٹمنٹ چا رجز جو پورا ایک گورکھ دھندہ ہے جس کے ذریعے کے الیکٹرک کو سہولت فراہم کی گئی ورنہ فیول ایڈجسٹمنٹ کیا ہے اس بارے میں وفاقی سیکرٹری پانی وبجلی نے اس بات کی نشا ندہی کی ،جس کے بعدیہ باتیں ہائی لائیٹ ہوئیں کہ اور اس پر یہاں پر بھی باتیں ہوتی رہی ہے۔ہم بھی اس پر بولتے اور چیختے رہے ہیں۔ اور یہ کرپشن کے الیکٹرک نے اربوں روپوں کی کی ہے یہ کمپنی جو خسارے میں تھی وہ کمپنی منافع میں آ گئی اور مزید منافع بخش ہو گئی ہیں اور اب 40سے 50ارب منافع کمارہے ہیں لیکن صارف کے حالات میں تبدیلی نہیں ہورہی ہے۔ یہ پورا ٹیرف انکی کارکردگی کی بنیاد پر ہے۔ آپ کی نیپر ا ٹیم جس نے کراچی کے مختلف علاقوں میں کے الیکٹرک کی کارکردگی کو چیک کرنے کے لیے جو دورے کیے ہیں۔اس دور ے کی وجہ سے Kالیکٹرک نے اپنی لوڈ شیڈنگ میں کمی تھی اور اپنے ایک دو پلانٹ بھی چلانا شروع کیے تھے، لیکن اس کے باوجود یہ لوگ ناکام ہوگئے۔ اس کے باوجود بھی لوڈ شیڈنگ اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ تا حال جاری ہے، اس کو کم کرنے میں ناکام رہے ہیں، کارکردگی ان کی خراب سے خراب تر ہوتی چلی جارہی ہے۔ اس کی سادہ مثال یہ ہے کہ ابھی عید کے تیسرے دن جب کراچی میں بارش ہوئی تو بارش کے پہلے قطرے پر بجلی غا ئب ہوگئی تھی، کراچی کے 70فیصد علاقوں کی بجلی نہیں تھی اور بجلی کی بحالی کا سلسلہ 36اور 48گھنٹوں میں جاکر بھی Kالیکٹرک پوری طرح بحال نہیں کیا تھا۔ اورجب کراچی میں گرمی 35ڈگری سینٹی گریڈ ہوجائے تو ان کے فیڈر ٹرپ ہونا شروع ہوجاتے ہیں، دھماکے ہونا شروع ہوجاتے ہیں، تار گرنا شروع ہوجاتے ہیں اور ان کے فیڈر اور ٹرانسفارمر سب خراب ہوجاتے ہیں۔ بارش کا قطرہ گرے تو یہ سارا کام شروع ہوجاتا ہے۔ ان سے آپ نیپراپوچھے تو صحیح انہوں نے ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن سسٹم کو بہتر بنانے کے لیے کیا کیا ہے، منافع پر منافع کماتے چلے جارہے ہیں ان سے ہے کوئی پوچھنے والا کہ آپ کو منافع ہو کیسے رہا ہے جب آپ پیسے ہی خرچ نہیں کررہے ہیں چیزوں کے اوپر تو اس کا مطلب ہے یہ منافع عوام کی جیبوں سے ناجائز طریقے سے لیا جارہاہے ورنہ آپ نے صارف کے لیے کچھ نہیں کیا ہے۔ آپ کے نمبر آف یونٹس جو 2005ء میں تھے آپ 12 سال کے بعد بھی اسی جگہ پر کھڑے ہوئے ہیں۔ بس یہ ہوا ہے کہ آپ خسارے میں تھے اب منافع میں آگئے ہیں، پیسے آپ کمائے چلے جارہے ہیں، جنریشن کے حوالے سے آپ سے وعدہ ہوا تھا کہ آپ 13 سو میگاواٹ کا اضافہ کریںگے، صرف3 سو 50میگاواٹ کا اضافہ ہوا ہے باقی نہیں ہوا کون پوچھنے والا ہے ان سے نیپرا کو پوچھنا چاہیے آپ ان سے پوچھتے نہیں ہیں نیپرا کے کتنے فیصلے ہوتے ہیں یہ کورٹ میں چلے جاتے ہیں۔پھر اس کے بعد نیپرا اس کا فالو اپ نہیں کرتا ۔ عدالتوں کے جواب میںیہ اسٹے آرڈر لے لیتے ہیں۔ جسکی وجہ سے کیس پیچھے چلے جاتے ہیں اور ہمارے حالات تبدیل نہیں ہوتے ۔ اس لیے ان چیزوں کو ٹھیک کرنے کے لیے نیپرا کو سنجیدگی کے ساتھ کام کرنا چا ہیے۔ ایس آر او کے تحت 2014میں ٹیرف دیا گیا تھا۔ وہ نیپراریگولیٹری اتھارٹی کے بغیر حکومت اجازت دے ہی نہیں سکتی ہے۔ ان کو کیسے 30فیصد ٹیرف میں اضافے کی اجازت دی گئی۔ غیر قانونی اضافہ تھا جو اس وقت کیا گیا تھا۔ اور آج تک وہ چلا آرہا ہے۔ آپ کوسب کو پہلے اس کو روکنا چاہیے اور وہ پیسے واپس کروانا چاہیے اور پھر اسی سطح پر لاکر وہ ٹیرف رکھناا ور پھر دیکھنا چاہیے کہ اگر کے الیکڑک کی کارکردگی ٹھیک نہیں ہوئی ہے تو مزید ٹیرف میں کمی کی جائے کیوں کہ منافع تو یہ کمائے چلے جارہے ہیں۔ اور یہ لوگ صرف کمانے کے لیے آئے ہوئے ہیں ۔ ہم سے یہ کہا جاتا ہے شنگھائی الیکٹرک آئیگی چائنا سے جو ہمارے تعلقات ہیں ان سے ہماری جو دوستی ہے کسی شک اور شبہے سے بالاتر ہے۔ آپ اس کا نام استعمال کرکے ہمیں دھوکا مت دیں۔ ہم یہ چاہتے ہیںکہ پورے 2009سے لیکر خاص طور پر 2017میںان کا فارنزک آڈٹ ہوناچاہیے۔ میں اس میںنیپرا سے گزارش کرتا ہوں کہ اس پر آپ جے آئی ٹی بنا ئیں آپ نہیں بناسکتے تو سپریم کورٹ آف پاکستان بنائے۔ جے آئی ٹی اس پر بننی چاہیے اس لیے کہ یہ کرائم ہے جو Kالیکٹرک ہمارے ساتھ کررہی ہے۔ دوسال قبل 5ہزار سے زیادہ لوگ ہیٹ اسٹروک کی وجہ سے جاں بحق ہوگئے تھے۔ کراچی کے ایک بڑے حصے میں ان کے پلانٹ بند پڑے ہوئے تھے۔ اگر یہ اپنے پلانٹس چلارہے ہوتے اور ڈسٹری بیوشن کررہے ہوتے تو اس کی وجہ سے بجلی کم زیادہ ہورہی ہوتی تو بات تھی۔ لیکن بجلی اس وجہ سے نہیں آرہی تھی کہ ان کے پلانٹس بند تھے اور بجلی نہیں آرہی تھی۔ اور لوگ جاں بحق ہورہے تھے۔ لوگوں کو قبرستان ، سردخانے نہیں مل رہے تھے۔ لاشیں سڑ رہی تھی لیکن نیپرا نے کے الیکڑک پر کوئی جرمانہ کیا اور نہ ہی ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔ہمیں بتائیے کہ اتنی بڑی تعدادمیں جان بحق ہو نے والے لوگوں کا کوئی پوچھنے والا ہے کہ نہیں ہے ایک ادارہ اسکا ذمے دار ہے اس سے کوئی بھی نہیں پوچھ رہا ہے ،اس پر 302کی ایف آئی آر بنتی ہے۔ لیکن کے الیکٹرک کے خلاف کوئی پوچھنے والا نہیں ہے آئو مارو ،لوٹو اور چلے جائو۔اور اگلے کو منتقل کرکے روانہ ہوجائو ۔کے الیکڑک کی سار ی پریزنٹیشن ایک گورکھ دھندہ ہے۔ میں ایک صارف ہوں مجھے بجلی نہیں ملتی ہے۔ Kالیکٹرک کہتی ہے کہ ہم نے 61فیصد علاقوں میں لوڈشیڈنگ فری کردی ہے۔ میں کہتا ہوں کہ کراچی کا کوئی بھی علاقہ لوڈشیڈنگ فری نہیں ہے۔ کے الیکٹرک والے صرف ایس ایم ایس کررہے ہوتے ہیں ان کے روزانہ نئے ایس ایم ایس آرہے ہوتے ہیں اور آج بھی میرے پاس کے الیکٹرک کا ایس ایم ایس آیا ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ صبح 9سے شام6بجے تک منٹیننس کی وجہ سے آپ کے علاقے میں شٹ ڈائون کرینگے۔ کے الیکٹرک کا طریقہ کار وہ بھی بالکل ٹھیک نہیں ہے کراچی کے شہریوں کو ایک طریقے سے دیکھا جائے۔ بجائے اس کے یہ بل کے اوپر نمبر لکھتے آپ کی کو ئی اوور بلنگ ہے۔ آپ کو کوئی شکایات ہے تو بل پر لکھا ہوناچاہیے کہ اس نمبر پر رابطہ کیا جائے۔ اور نیپرا کا بھی نمبر اس میں شامل ہونا چاہیے کہ صارف کو کے الیکڑ ک سے شکایات کی صورت میں ہم سے بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن کے الیکڑک بل کے پیچھے ہتھکڑیاںبناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ کے علاقے میں اگر کوئی چوری ہورہی ہے تو آپ چور کو پکڑیں، چوری پکڑنا عوام کا کام نہیں ہے چوری پکڑناکے الیکڑک کا کام ہے ۔ آپ کا عملہ مل کر چوری کرتا ہے یہ حکومت کاکام ہے کہ اس کے ساتھ مل کر آپ چوروں کو پکڑیں کے الیکٹرک عوام کو چور کہتی ہے اور چور بناتی ہے لیکن آج کراچی کی گلی گلی میں یہ بات سنا ئی دی جا تی ہے کہ یہ تانبہ چور ہے اور ڈاکو ہے یہ ہمارے پیسے کھارہے ہیں تو یہ بات غلط نہیں ہے۔ اس لیے میں کہنا چاہتا ہوں کہ ان تمام معاملات کو کے الیکٹرک کو ہی دیکھنا ہے۔ یہ کیا بات ہے کہ جب ہم سپریم کورٹ آف پاکستان گئے تو چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے۔ کہ یہ لوگ ریگولیٹری اتھارٹی کے پاس نہیں جاتے ہیں ہمارے پاس آجاتے ہیں۔ ہم نے ان سے کہا کہ ہم گئے ہیں ان کے پاس اور بار بارگئے ہیں اور دیگر بھی گئے ہیں۔انہوں نے سوا ل کیا کہ کیا ان لو گوں کی کہی ہوئی باتیں غلط ہو تی ہیں۔ بہت سے لوگوں نے اپنی عمریں گزار دی ہیں ریگولیٹری اتھارٹی کے پاس جاتے جاتے۔ ہم نے بھی آپ کو بہت ساری چیزیں تحریری طور پر دی ہیں اور بار بار اس کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ ہم کسی ہوائی باتوںپر عوام کے حقوق کے لیے پوری مہم نہیں چلارہے ۔ لیکن اس کے باوجود اگر لوگوں کو سہولت نہیںملے گی تو جائینگے سپریم کورٹ کر ینگے کے الیکڑک کے خلاف جے آئی ٹی کا مطالبہ ناکہ آپ جوڈیشل کمیشن بنائیں اور چیک کریں کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ ہم نے ہمیشہ تو پرائیوٹائزیشن کے خلاف بات کی ہے۔ لیکن چلیں اگر آپ نے ایک پروسس کو اپ ڈیٹ کیا تو کس بنیاد پر کیا ہے اور آپ معاہدہ سامنے نہیں لاتے ۔ آپ شنگھائی الیکٹرک کا نام لیتے ہیں اس کا معاہدہ بھی سامنے لایئے ۔ اثاثہ جات بتائیں کہ کتنے آپ کو دینے ہیں۔آپ ان کے ساتھ بھی فلرٹ کر رہے ہیں اور پھر جب وہ آئیں گے تو آپ ان کو عوام کے ساتھ لڑائیں گے اور کہا یہ جائے گا کہ چائنا کے ساتھ ہم نہیں لڑ سکتے۔ بھائی ہم چائنا کے ساتھ نہیں لڑ سکتے ہیں لیکن کے الیکٹرک عوام کو ٹرانسپرنٹ طریقے سے اپنے معاملات کے بارے میں بتائے اور چیزوں کو سامنے لے کر آئے ۔ اگر ان لوگوں کو بھاگنے کا مو قع دے دیا تو کوئی پر ائیویٹ کمپنی جو منافع کے لیے کام کرتی ہے ۔ اس کے پاس بھی اگر یہ مثال بن جائے گی کہ 2 سے 3 سو ارب لوٹ کر بھاگ جائیں گے آپ کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا ۔ مینجمنٹ بدل جائے گی،شیئرز بدل جائیں گے تو ہر آدمی کے لیے آسان راستہ ہوتا ہے کہ یہی کام کرتا چلا جائے گا ۔ لوگ یہ سمجھیں گے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں ہوگا ۔ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہوگا ۔ اس لیے میں نیپرا سے پر زور اپیل کرتا ہوں کہ ٹیرف میں اضافہ کسی بھی سطح پر نہیں ہونا چاہیے ۔ جو 30 فیصد اضافہ ایس آر او کے تحت کیا گیا تھا اس کو بھی واپس ہونا چاہیے ۔ ان کی کارکردگی اور خراب کا رکردگی کی وجہ سے ان کے پچھلے ٹیرف میں بھی کمی کرنی چاہیے ۔ اور یہ سارا کام کے ا لیکٹرک سے کروانا چاہیے اور ان کو یہ بھی کہا جائے کہ یہ گیس والوں سمیت دیگراداروں کے پیسے کیوں ادا نہیں کرتے ہیں ۔ جب کے الیکڑک کسی صارف کوبل بنا کر بھیجتے ہیں تو صارف یہ کہتا ہے کہ میرا بل جائز نہیں ہے اور ان کا یہ فرض بنتا ہے کہ اگر یہ کسی صارف پر ایوریج بل کے نام پر اضافی بل لگا دیتے ہیں اور کہا جا تا ہے کہ آپ نے( صارف) نے چوری کی ہے لیکن بل پر لکھتے نہیں ہیں اور اپنی مرضی سے بل بنا کر بھیج دیتے ہیں اور جب صارف اپنا بل لیکر جاتا ہے توکے الیکٹرک کا جو عملہ ان کے آفس میں بیٹھا ہوا ہوتا ہے وہ کہتا ہے کہ آپ نے چوری کی ہے ۔ آپ نے میٹر میں ٹیمپرنگ کی ہے صارف اس سے پوچھتا ہے کہ کہاں کی ہے تو صارف کا کوئی سننے والا نہیں ہوتا ہے ۔ میں نیپرا سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ کراچی کے ہزاروں لوگ روزانہ کے الیکٹرک کے آئی بی سی میں دھکے کھانے پر مجبور ہیں کوئی ان سے پوچھنے والا نہیں ہے ۔ ہمارے پاس لوگ آتے اور روتے ہیں اور کہتے ہیں کے ،کے ا لیکٹرک نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ۔ ہمیں برباد کر کے رکھ دیا ہے ہمارے گھر بل ڈیڑھ لاکھ کسی کا2لاکھ ،4لاکھ اور6لاکھ تک لوگوں کو بل بھیج دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ جمع کرائیں بل اور قسطوں پر کرائیں بات ہی نہیں کرتے ، یہاں تک کہ صارف کی جا نب سے دی جانے والے شکا یتی درخواستوں کو وصول نہیں کرتے ہیں۔ہمارے پاس تو ایسے ثبوت ہیں کہ ایک صارف نے ڈاک کے ذریعے کے الیکٹرک کو اپنی شکایات بھیج دیں اس کو بھی وصول کیے بغیر واپس کر دیا کہ ہم اس درخواست کو وصول نہیں کرتے تو پھر یہ لوگ مسائل کیا حل کریں گے ۔ لوگ وفاقی محتسب کے پاس جاتے ہیں ۔ 20 ہزار کیسزکے ا لیکٹرک کے خلاف داخل ہیں اور وہاں سے بھی لوگوں کو انصاف نہیں ملتا ۔جب نیپرا انصاف نہیں دیتا ، وفاقی محتسب انصاف نہیں دیتا ہے عوام ان کے IBS آفس میں جا کر دھکے کھاتے ہیں، تو میں کراچی کے ایک شہری ،نمائندے کی حیثیت سے بھی ظاہر ہے ہم لوگوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہوتے ہیں تو ہم کیا کریں ہم گھس جائیں کے الیکٹرک کے آئی بی ایس کے اندر اور پھر زبر دستی کام کرائیں ان لوگوں سے پھر آپ کوخیال آئے گا ہمیں تو ایسا نہیں کرنا چاہیے ۔ ہزاروں لوگ اس شہر کے اندر کیس جیتے ہوئے لیکن اس پر عملدرآمد نہیں کیا جاتا اور ان کو یہ اتھارٹی کس نے دی ہے جو یہ بد معاشی کر رہے ہوتے ہیں عوام کی نہیں سنتے ہم آپ سے کہتے ہیں کہ کے الیکٹرک نے کراچی کی سیاست کو سمجھ لیا اورکراچی کے نام نہاد اسٹیک ہولڈر کو کراچی کے مختلف علاقوں کو ٹھیکے پر دے دیا اور ان سے کہا کہ ہمیں اتنے پیسے چاہئیں اس سے زیادہ جتنے ہوں گے وہ آپ کے ہوں گے اس طرح سے ٹھیکے داری کاپورا نظام دہشت گردوں اور پارٹی کے (غنڈوں)کے سپرد کر دیا۔ اب آپ بتائیے کہ ان دہشت گردوں کے سا منے لوگ کیسے آئیںگے ،جب یہ لوگ بجلی کاٹنے آتے ہیں تو ان دہشت گردوں کے سامنے کیسے ایک عام شخص کھڑا ہو سکتا ہیں میں اس شہر میں رہتا بستا ہوں سب کو جانتا ہوں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ایک عام شہری کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔ بد قسمتی سے عدالتوں سے بھی انصاف نہیں مل رہا ۔ لوگوں کو نیپرا سے بھی انصاف نہیں مل رہا ۔ تو ہم کہاںجائیں گے اس لیے بالآخریہ مسئلہ امن و اما ن خراب کرنے کا سبب ہوگا ۔ لوگ مجبور ہوں گے ۔ فیصلہ کرنے لگیں گے لوگ پھر خود جذباتی ہو کر سڑکوں پر آئیں گے اور پھر یہ کسی کے کنٹرول میں نہیںرہے گا ۔ اس لیے اس سے پہلے آپ لوگ ان کے ٹیرف میں کسی صورت اضافہ نہیں ہونا چاہیے اور اسی طرح کے الیکٹرک کافارنزک آڈٹ ہونا چاہیے ۔کے الیکٹرک کو بھاگنے کا موقع نہیں ملنا چاہیے ۔ یہ آئے روز کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی کارکردگی ٹھیک کر لی ہے انہوں نے کیا اپنی کارکردگی ٹھیک کی ہے ۔ ایک چھوٹی سی بات جو گزشتہ سماعت میں بھی آپ سے عرض کی تھی کہ اسنیپ شاٹ نہیں ہوتا آپ نے کہا کہ ہونا چاہیے کوئی مسئلہ نہیں ہے8مہینے گزر گئے وہی شروع کر دیتے کم از کم جب بل آئے تو اس میں اسنیپ شاٹ آ جائے اس میں تو کوئی ایسی بات ہی نہیں ہے ناجو نہیں ہو سکتی ہے اتنا زبر دست سسٹم آپ نے بنایا ہوا ہے اتنے سوفٹ ویئر انجینئر آپ کے پاس موجود ہیں زبر دست طریقے سے آپ کا ادارں آگے چل رہے ہیں آپ یہ کام نہیں کر سکتے ۔ ظاہر ہے کہ آپ اسی پر تو کھیل رہے ہوتے ہیں ۔ اس کے ذریعے لوگوں سے پیسے وصول کر رہے ہوتے ہیں ۔اس دن میٹر ریڈنگ لینی ہے اس دن میٹر ریڈنگ نہیں لینی ہے ۔ انڈسٹری کی صورتحال کے بارے میں بتائوں کہ زیادہ تر انڈسٹری ایسی ہوتی ہے کہ وہ یپک آورز میں چل نہیں رہی ہوتی ہے اور جو پروسیسنگ انڈسٹری ہوتی ہے وہ ظاہر ہے 24 گھنٹے چل رہی ہوتی ہے لیکن انڈسٹری کا80سے90 فیصد انحصارجنریٹرز کے اوپر ہوتا ہے اس کے اوپر یہ انڈسٹری چلا رہے ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ کے الیکٹرک سے اتنی مہنگی بجلی وہ لوگ لیں گے نہیں لے سکتے اور یہ صرف ایک سیکٹر کو تھوڑا خوش کرنے کے لیے کراچی کے بقیہ ڈھائی کروڑ لوگوں کے ساتھ جو کچھ کر رہے ہیںاسکا کو ئی پو چھنے والا نہیں ہے جبکہ انڈسٹری مالکان سے بھی الگ الگ معلومات حاصل کریں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ان کے کیا کیا مسائل ہیں ۔ جس طرح سے کراچی کے شہری پریشان ہیں آپ کو اس حقیقت پسندی کے ساتھ مسئلہ حل کرنے اور آپ سے درخواست ہے کہ آج کی سماعت کو ضائع نہیں جانا چاہیے TND جو کراچی کے عوام کے ساتھ زیادتی ہے انہوں نے مانگا بھی نہیں اور آپ نے انہیں دے دیا ہے ۔ اسے واپس ہونا چاہیے اسی طرح آپریشن اینڈ مینٹیننس جس پر انہوں نے وعدہ کیا کہ ہم ملازمین کو نہیں نکالیں گے ۔ 35پیسے فی یونٹ آج تک چارج کر رہے ہیں ۔ ملازمین انہوں نے نکال دیے لوگ سڑکوں پر آ گئے ہیں ملازمین احتجاج کرتے رہے ان لوگوں کے ساتھ بہت زیا تی کی ہے انہوں نے جبکہ کچھ لوگوں نے مجبوراً گولڈن ہینڈ شیک لیا اور بہت سے لوگوں کی ایسی بھی تعداد ہے جن کو وہ بھی نہیں ملا ہے ان لوگوں کا والی وارث ہے کوئی اس ملک کے اندر کوئی پوچھنے والا ہے یہ دھکے کھاتے پھرتے ہیں ۔ وہ عدالتوں کے اندر اپنے انصاف کے حصول کے لئے در در کی ٹھو کر کھا رہے ہیں انصاف کے لئے کہاں سے پیسے لائیں گے ۔لیکن اس کے مقابلے میں کیا کیا ہے کے الیکڑک پیسے بھی ہم سے چارج کر رہے ہیں اور آپ نیپرا انکے ٹیرف میں اضا فہ کر رہے ہیں یہ تو نا کریں آپ ایک طرف17 ہزار ملازمین سے ڈ ائون سائزنگ کے نتیجے میں 10 ہزار ملازمین پر آ گئے ہیں اس طرح 7 ہزار ملازمتیں کم ہو گئیں ، ظاہر ہے کہ ان کی بہت ساری چیزوں کو جو ان کے میڈیکل ہے ان کی گاڑیاں اور دیگر سہو لیات ہے وہ ساری چیزیں کم ہو گئی ہیں تو اس کا مطلب آپریشن اینڈ مینٹیننس چارج بھی کم ہو گئے ہیں تو آپ بڑھا کیوں رہے ہیں۔کے الیکٹرک ہر جگہ سے پیسے کمانا چاہتی ہے ہر جگہ سے پیسے نچوڑناچاہتے ہیں یہ بالکل نہیں ہونا چاہیے اور اس کا نیپرا کو پوری طرح سے جائزہ لینا چاہیے کہ اگرکے الیکٹرک کہتی ہے کہ ہمارا ٹیرف یو نی فائیڈ ٹیرف سسٹم ہے تو ایک ہی جیسے یونٹ کے اوپر مختلف سال کے مختلف مہینوں کے اندر فرق کیوں آتا ہے۔ اور یہ فیول ایڈ جسٹمنٹ کا گورکھ دھندا استعمال کر کے کبھی یہ کسی بھی چیز کے بارے میں بیان بازی کرتے ہیں یہ کسی بھی صورت قبول نہیں ہے جو پیسے کراچی کے عوام سے لیے گئے ہیں اس کی واپسی کے لیے بھی نیپرا کو بات کرنی چاہیے ۔