اداروں کے خلاف سندھ حکومت کی جنگ

213

Edarti LOHکسی بھی ملک کے معاملات بہتر طور پر چلانے کے لیے اس کے اداروں کو ان کے ضوابط اور حدود کے مطابق کام کرنے کا موقع دیا جانا چاہیے لیکن پاکستان میں یہ مسئلہ سرچڑھ کر بول رہا ہے کہ وفاق اور صوبے اپنے اپنے دائرہ کار میں اداروں کے کام کو محدود کرتے ہیں یا ان پر اپنا تسلط جمانے کے لیے اسمبلی کے ذریعے قانونی حملے کرتے ہیں۔ بسا اوقات آئین سے ماورا قوانین بناکر اداروں کی شکل ہی بدل دی جاتی ہے۔ سندھ حکومت بھی اس حوالے سے اپنے دائرے کار میں کسی ادارے کو کام کرنے کا موقع نہیںدینا چاہتی۔ اس حوالے سے سندھ احتساب ایجنسی کے قیام کا بل تیار کرلیا گیا ہے۔ اگرچہ سندھ اسمبلی کے منظور کردہ بل کو گورنر سندھ نے واپس کردیا ہے لیکن حکومت نے اصل ادارے نیب کو غیر موثر بناکر سندھ احتساب ایجنسی قائم کرنے کا بل پھر منظور کرلیا۔ اس کے چیئرمین کے تقرر کا حتمی اختیار بھی اسپیکر کو ہوگا۔ عدالتیں کرپشن کے معاملے پر از خود نوٹس نہیں لے سکیںگی۔ نہ جانے صوبائی حکومت کو نیب سے کیا خوف تھا کہ اسے ختم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ حالانکہ یہ اقدام آئین پاکستان سے بھی متصادم ہے۔ تاہم اس کی تشریح عدالت عظمیٰ میں ہی ہوسکے گی۔ بات صرف نیب کی نہیں ہے سندھ کے آئی جی پولیس، اے ڈی خواجہ کے ساتھ تو صوبائی حکومت مسلسل مذاق کررہی ہے۔ کبھی ان کی خدمات واپس کردی جاتی ہیں کبھی غیر موثر بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ عدالت عالیہ سندھ نے ان کو اپنے منصب پر براجمان رکھا ہوا ہے ورنہ وہ خود اس کھینچا تانی سے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔ تازہ ترین بات تو یہ ہوئی کہ آئی جی سندھ نے تنگ آکر وزیر اعلیٰ سندھ کو خط لکھ دیا کہ وزیر داخلہ سندھ کے اقدامات سے صوبے کا امن خطرے میں ہے۔ اب آئی جی آپریشنز سمیت اہم عہدوں پر تقرر و تبادلوں کے موقع پر اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ انہوں نے وزیراعلیٰ سے شکوہ کیا ہے کہ میرے عہدے کا انتظامی کنٹرول کم کیا جارہاہے۔ انہوں نے دیگر شکایات کے علاوہ یہ بھی کہا کہ سندھ پولیس کو انتظامی طور پر خود مختار بنانے کے ایپکس کمیٹی کے فیصلوں پر بھی عمل نہیں کیا جارہا۔ کسی صوبے کے آئی جی پولیس کا اس صوبے کے چیف ایگزیکٹو کو وزیر داخلہ کی مداخلت کے حوالے سے خط لکھنا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہوتا یہ تو سیدھا سیدھا صوبے میں امن وامان کے سنگین بحران کی علامت ہے اگر آئی جی سندھ کو کام کرنے نہیں دیا جائے تو وہ کسی بھی حادثے، سانحے یا واقعے کی ذمے داری یہ کہہ کر ٹال دے گا کہ چونکہ میرے اختیارات میں کمی کردی گئی ہے اس لیے میں اس مسئلے کے حل سے قاصر ہوں۔ میئر کراچی کی مثال تو سب کے سامنے ہے۔ ہر معاملے میں اختیارات کی کمی کا رونا ہی روتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ آئی جی سندھ کے اس خط کا وزیراعلیٰ کیا جواب دیتے ہیں۔ ویسے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ وزیر داخلہ سندھ کیا سارے کام اپنی مرضی سے کررہے ہوںگے، وزیراعلیٰ کو ان کا علم نہیں ہوگا۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ خط وزیراعلیٰ کو بھیجنے کا جواز ہے ورنہ تو یہ ایک ہی بات ہے خواہ وزیر داخلہ کا نام لکھاجائے یا وزیراعلیٰ کا۔ آئی جی اے ڈی خواجہ کو یہ خط تو عدالت عالیہ سندھ کو لکھنا چاہیے تھا کیونکہ جتنی مداخلت ہورہی ہے اور جو اقدامات سندھ حکومت کررہی ہے وہ عدالت عالیہ کے فیصلوں کے خلاف ہے۔ یہ صریحاً توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔ ممکن ہے اے ڈی خواجہ نے اپنا کیس مضبوط کرنے کے لیے پہلا قدم یہی مناسب سمجھا ہو۔ اور بعد میں عدالت کی طرف رخ کریں لیکن کیا حکومت چلانے کے یہی طریقے ہیں اگر اسی طرح حکومت آئی جی سندھ کے معاملات میں مداخلت کرتی رہی تو صوبے کے امن وامان کو واقعی بڑے خطرات لاحق ہوجائیںگے۔ ویسے بھی پنجاب میں دھماکے اور کراچی میں پولیس اہلکاروں پر حملوں کی روشنی میں حکومت سندھ اور آئی جی کو نوٹس لینا چاہیے۔ کیا کسی بڑے حادثے کے بعد ذمے داریوں اور الزامات کا تبادلہ ہوتا رہے گا اور نقصان اٹھانے والے ہمیشہ کی طرح عوام ہی ہوںگے۔ یہ عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے نمائندے ہیں اور عوام کے مفادات سے کھیل رہے ہیں۔