تیئیس فنی تعلیمی ادارے ایس بی ٹی ای کے نادہندہ نکلے

294

کراچی(رپورٹ:حماد حسین)سندھ بھر کے 23فنی تعلیمی ادارے سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن (ایس بی ٹی ای)کے لاکھوں روپے کے نادہندہ نکلے۔سندھ ٹیکنیکل ایجوکیشنل ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی کی جانب سے اداروں کو جلد از جلد واجبات کی ادائیگی کے نوٹس جاری کردیے گئے۔ذرائع کے مطابق سندھ بھر کے 23فنی تعلیمی ادارے جوکہ کئی سال سے سندھ بورڈ آف ٹیکنیکل ایجوکیشن کی تجدیدی فیس جمع کرواتے ہی نہیں ہیں۔ان تعلیمی اداروں سے تجدیدی فیس کے حصول کے لیے سندھ ٹیکنیکل ایجوکیشنل ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی کے ڈائریکٹر اکیڈمک نے ایک مکتوب نمبر STEVTA/HQ/SBTE/209جاری کیا تھا۔ جس میں یہ تحریر تھا کہ گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ برائے بوائز آسو گوٹھ (صبح وشام) پر 34200روپے،گورنمنٹ مونو ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ برائے بوائزلطیف آباد حیدرآباد پر 17100،گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ میر پورخاص پر 17100،گورنمنٹ مونو ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ برائے بوائز سہون شریف پر85000،گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ مہر پر 17100،گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ مہراب پور پر22800،گورنمنٹ مونو ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ ہالا پر 28500،گورنمنٹ مونو ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ ماتلی پر34200،گورنمنٹ مونو ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ ٹنڈوبھاگوپر 5700،گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ جیکب آباد پر 102600،گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی لاڑکانہ پر 62700،گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ برائے خواتین سکھر پر5700،گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ گھوٹکی پر 91200،گورنمنٹ مونو ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ پنوعاقل پر 79800،گورنمنٹ مونو ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ رتو ڈیروپر79800،گورنمنٹمونو ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ ڈھرکی پر102600،گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ خیرپور پر 136800، گورنمنٹ مونو ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ قنبر79800، گورنمنٹ مونو ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ گڑھی یاسین پر 39900اور گورنمنٹ پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ قنبر علی خان پر 68400روپے کی رقم تجدیدی فیس کی مد میں واجب الادا ہے اس رقم کو جلد از جلد ادا کیا جائے۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ اس طرح کے مکتوب اس سے قبل بھی کئی بار تعلیمی اداروں کوارسال کیے گئے ہیں تاہم وہاں موجود پرنسپل صاحبان کی جانب سے یا تو کوئی جواب ہی نہیں دیا جاتا یا پھر یہ جواب دیا جاتا ہے کہ ہمارے پاس فنڈز کی کمی ہے۔ان میں کئی تعلیمی اداروں نے 15سال سے انسٹی ٹیوٹ کی تجدیدی فیس ہی جمع نہیں کروائی ہے۔تاہم بورڈ کی جانب سے بھی ایسے اداروں کے خلاف کاروائی بھی نہیں کی جاتی ہے۔