احتساب کا عمل اور جماعت اسلامی و دیگر سیاسی جماعتیں!

211

zr_M-Anwerپاناما اسکینڈل کا فیصلہ عدالت عظمیٰ کسی بھی وقت سنادے گی۔ لیکن پوری قوم کی نظریں وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کی کرسی پر جمی ہوئی ہیں۔ قوم اس سیٹ پر نیا چہرہ دیکھنے کے لیے بے چین نظر آرہی ہے۔ بعض افراد کو یقین ہے کہ اگر نواز شریف کے خلاف احتساب ہوگیا تو پھر دوسروں کی بھی باری آئے گی۔ یقینا آنا بھی چاہیے۔ ملک کے خزانے کو جس نے بھی نقصان پہنچایا اسے سزا ملنا انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہوگا۔ وزیراعظم نواز شریف خود بھی اس بات کا اظہار کرچکے ہیں کہ ’’اگر آج میرا احتساب ہورہا ہے تو کل دوسروں کی بھی باری آئے گی‘‘۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم ذہنی طور پر احتساب کے لیے تیار ہوچکے ہیں۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور ان کے دیگر رہنما ئوں کو بھی یقین ہے کہ نواز شریف اب جانے والے ہیں۔ وہ غیر معمولی خوش ہورہے ہیں کہ کرپشن کے خلاف جو مہم انہوں نے چلائی تھی اس کا پھل انہیں ملنے والا ہے۔ حالاںکہ کرپشن کے خلاف جماعت اسلامی نے بھی بھرپور تحریک چلائی اور کرپٹ حکمرانوں کے خلاف عدالت سے بھی رجوع کیا۔ اگر ملک میں حکمرانوں کے احتساب کا یہ سلسلہ شروع ہوگیا تو نئے پاکستان کی ابتداء ہوجائے گی۔ جس کے نتیجے میں حکومتوں میں رہنے والے اور سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے والے کم از کم ان شخصیات کو بچنا مشکل نظر آرہا ہے جو جمہوریت کے ’’چمپئن‘‘ مسٹر ٹین پر سنٹ کہلاتے ہیں اور وہ بھی جن پر کرپشن کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ بدعنوان سیاست دانوں کا محاسبہ ہوتا رہا تو یقین ہے کہ سیاست کے میدان میں جماعت اسلامی ’’کرپشن سے پاک‘‘ جماعت قرار پائے گی۔ اعلیٰ عدلیہ تو پاناما اسکینڈل کی مقدمہ سننتے ہوئے اس بات کا اظہار بھی کرچکی ہے کہ اگر گزشتہ 20،25 سال کا ریکارڈ چیک کیا جائے تو اسمبلی میں صرف سراج الحق صادق و امین نکلیں گے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے ملک میں احتساب کا عمل واقعی شروع ہوجائے گا؟ اور کیا اسے جمہوری عناصر برداشت کرلیں گے؟ ہم ویسے بھی انتہائی بے صبر لوگ ہیں۔ پاناما اسکینڈل کے ممکنہ نتائج کو سامنے رکھ کر بعض افراد اس بات کا برملا اظہار بھی کررہے ہیں کہ ’’صرف نواز شریف کو پکڑنے سے کیا ہوگا، سب کو پکڑیں تو بات ہے‘‘۔ میرا خیال ہے کہ اس قدر جلد بازی کے بجائے لوگوں کو چاہیے کہ صبر سے عدلیہ اور ملک کے اداروں کی طرف دیکھتے رہیں وہ ادارے جو وزیراعظم کے ماتحت ہوکر وزیراعظم سے مشترکا پوچھ گچھ کرسکتے ہیں اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق تحقیقات کرکے ’’دودھ کا دودہ اور پانی کا پانی‘‘ کرسکتے ہیں، یقینا ان کے حوصلے وزیراعظم نواز شریف سے براہ راست پاناما اسکینڈل پران کا انٹرویو لینے کے بعد مزید بلند ہوچکے ہوںگے۔ اس طرح کی تحقیقاتی عمل کے نتائج کو عدالت کی جانب سے تسلیم کرکے اگر وزیراعظم کو نااہل قرار دیا جاتا تو اس سے ملک کے اہم تحقیقاتی اور دیگر متعلقہ اداروں سے تعلق رکھنے والے ہر شخص کی قدر میں اضافہ بھی ہوگا جب کہ قوم کو کرپٹ عناص سے نمٹنے کے لیے ایک ایسا نیا راستہ بھی مل جائے گا۔ جس سے جمہوری نظام پر بھی آنچ نہیں آئے گی اور کرپٹ عناصر بچ بھی نہیں سکیں گے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا تمام سیاسی جماعتیں نواز شریف اور ان کی پارٹی کی طرح قانون نافذ کرنے والے اداروں، جے آئی ٹی اور عدلیہ سے تعاون کرتی رہیں گی؟
جمہوریت کی سب سے بڑی اچھائی یہ ہوتی ہے کہ اس میں ہر ایک کو آزادانہ اظہار خیال کی آزادی ہوتی ہے۔ ہر سیاسی کارکن کو اپنے رہنمائوں پر بھی تنقید کا پوار حق ہونا چاہیے۔ جو بدقسمتی سے ہمارے ملک کی سیاسی جماعتوں میں بہت کم نظر آتا ہے۔
پاناما اسکینڈل کیس کا فیصلہ محفوظ کیے جانے کے بعد اکثر لوگوں کی نظریں عمران خان کی نااہلی سے متعلق کیس کی سماعت پر بھی ہیں، لوگ اس کیس کے فیصلے کے بھی منتظر ہیں۔ راقم الحروف نے اسی حوالے سے تحریک انصاف کے مقامی رہنما اور کراچی کی نامور سیاسی شخصیت حلیم عادل شیخ سے بات کی اور ان سے پوچھا کہ اگر عمران خان کے خلاف احتساب ہوا تو آپ لوگوں کا کیا ردعمل ہوگا؟ حلیم عادل نے جواب دیا کہ ’’عمران خان تو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ میرے خلاف تحقیقات کرلی جائیں، میں ہر طرح کے سوالات کا جواب دینے کے لیے تیار ہوں‘‘۔ حلیم کاکہنا تھا کہ عمران خان کا کردار سب کے سامنے ہے وہ کرکٹ کے میدان میں بھی پاکستان کا نام روشن کرتے رہے اور سیاسی میں بھی ملک کا نام بلند کررہے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا کہ کیا تحریک انصاف میں جمہوریت ہے، تو انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس تو باقاعدہ انتخابات ہوتے ہیں۔ لگے ہاتھوں جب نازبلوچ کی تحریک انصاف سے دوریوں کے حوالے سے پوچھا گیا تو حلیم عادل نے بتایا ہے کہ ’’پاکستان تحریک انصاف کرپشن کے خلاف تحریک چلارہی ہے ساتھ ہی نظم و ضبط کے اصول پر بھی عمل کرتی ہے۔ ناز بلوچ کو تحریک انصاف کے لیے جس طرح ذمے داریاں ادا کرنی تھی وہ نہیں کررہی تھیں بلکہ پارٹی یہ محسوس کررہی تھی کہ وہ اپنے آپ کو پروموٹ کررہی تھیں، اس لیے امکان تھا کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی کی جاتی شاید ناز کو اس بات کا اندازہ ہوگیا تھا جس کی وجہ سے وہ پارٹی چھوڑ گئیں۔ حلیم عادل نے کہا کہ ناز بلوچ کا یہ کہنا تو بالکل ہی درست نہیں ہے کہ تحریک انصاف میں خواتین کو اہمیت نہیں دی جاتی، انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف ہی وہ پارٹی ہے جس میں خواتین کو سب سے زیادہ اہمیت اور عزت بھی دی جاتی ہے۔
تحریک انصاف کی رہنما ناز بلوچ پیپلز پارٹی میں شامل ہونے سے قبل پیپلز پارٹی سے سابق وفاقی وزیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان اور پی پی پی کے سینیٹر ڈاکٹر بابر اعوان اسے خیر باد کرکے تحریک انصاف میں شامل ہوچکے ہیں۔ سیاسی جماعتوں سے رہنمائوں کی پارٹیوں سے علیحدگیاں بھی جمہوری عمل کا حسن کہلاتی ہیں اس طرح کے پرامن سلسلے کو چلتا رہنا چاہیے تاکہ سیاسی جماعتیں اپنی اصلاح بھی کرسکیں۔