محمد مظفر الحق فاروقی
میں کالم کی ابتداایک بہت پرانے محاورے سے کررہا ہوں جسے ہم بچپن ہی میں سُنا کرتے تھے۔ میرے ذہن میں اسی کالم کی سرخی یہ ابھرتی تھی ۔’’سراج الحق اور عمران خان کی محنت۔ دکھ سہیں بی فاختہ کوے انڈے کھائیں‘‘ مگر یہ سرخی لمبی ہوجاتی بہت سے لوگ اوپر کی سرخی ہی کو پڑھ کر سمجھ گئے ہونگے کہ کیا کہا جانے والا ہے۔
کوا وہ پرندہ ہے جس بے چارے کو کوئی پالتا تو نہیں مگر وہ ہمیشہ انسان سے بہت قریب رہتا ہے ۔ آپ پالینگے تو اس کی کائیں کائیں آپ کا دماغ کھا جائے گی اور صرف یہی نہیں کوا اردگرد کے درجنوں کوئوں کو اس طرح اکٹھاکرلے گاکہ آپ کا جینا حرام ہوجائے گا ۔ مگر یہ پرندہ ایک صفت کا بھی مالک ہوتاہے اور وہ ہے اس کا ہوشیار اور چالاک ہونا۔
کوئے کا ذکر جہاں تک مجھے یاد ہے دو محاوروں میں آتا ہے۔ ایک تو وہ جس کا اسی کالم کی سرخی میں ذکر ہوا۔دوسرا یہ محاورہ کہ’’کوا چلاہنس کی چال اور اپنی چال بھی بھول گیا۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ کوا اتنا ہوشیار اور چالاک ہوتا ہے کہ جب فاختہ اپنے انڈوں پر بیٹھتی ہے اور بچے نکلنے کے قریب ہوتے ہیں تو کوا فاختہ کے انڈوں کو چونچ میں دباکر چل دیتا ہے اور ان کو لقمہ تربنالیتا ہے ۔ جن انڈوں کو فاختہ کئی دنوں تک سیتی ہے ان کو کوامنٹوں میں ہی ہضم کرجاتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کوا گھونسلے میں بیٹھ کر اپنے انڈوں سے بچے نکالنے کی زحمت بھی گوارا نہیں کرتا اور جاکر فاختہ کے گھونسلے میں انڈے دے دیتا ہے۔ بے چاری فاختہ اپنے انڈوں کے ساتھ ساتھ کوے کے انڈوں کو بھی سیتی ہے۔
پاکستان میں پاناما کا ہنگامہ یا پاناما کی سیاست جو گزشتہ ڈیڑھ سال سے چل رہی ہے اور جس کا محور نواز شریف اور ان کا خاندان ہے اور جس کانتیجہ آنے والا ہے یہ نتیجہ بجلی کی مانند گرے گا۔ گزشتہ ڈیڑھ سال کے حالات اسی بات پر گواہ ہیں کہ اس سارے طوفان میں جنہوں نے ملکی سیاست میں بہت بڑا مدوجزر پیدا کیا تین شخصیات ایسی ہیں جنہوں نے بدعنوانی اور کرپشن کا پردہ چاک کرنے میں سب سے زیادہ اہم کردار ادا کیا باقی سیاستدانوں کی حیثیت شامل باجا کی سی تھی۔ پاناما کے ایشو کو اگر کسی نے زندہ رکھا یا جلا بخشی تو وہ سراج الحق، عمران خان اور شیخ رشید تھے اور ہیں۔ کرپشن کے خلاف سب سے پہلا پتھر امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے پھینکا۔ کرپشن کے خلاف ہر بڑے شہر میں مارچ کیا اور عدالت عظمیٰ کے دروازے کو کھٹکھٹایا ہی نہیں ہلاکر رکھ دیا۔ سراج الحق صاحب وہ شخصیت ہیں جن کی کاوشوں اورمتوازن تبصروں اور بیانات سے عاجز آکر پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنااللہ کو اس حد تک گرنا پڑا کہ ایک بڑے اور باکردار انسان کو اس شخص نے ’’مکار مولوی‘‘کا خطاب دے دیا۔ سراج الحق صاحب کومکار مولوی کا نام دینے والے رانا صاحب شاید اپنی شکل بھول گئے جو کسی پنڈت یا چوکیدار سے ملتی جلتی ہے۔ سراج الحق صاحب جیسے درویش صفت انسان کے لیے رانا صاحب کا خطاب حقیقت کے برعکس ہی نہیں کم ظرفی بھی تھی۔ سراج الحق صاحب وہ شخص ہیں کہ جب وہ صوبہ سرحد میں سینیر وزیر تھے تو ایک چھوٹے سے وفد کے ساتھ (شاید)جاپان گئے وہاں ہوٹل بہت مہنگے تھے۔ سراج صاحب نے کہا کیوں نہ ہم لوگ کسی مسجد میں جاکر رات گزار لیں اور انہوں نے ایسا ہی کیا۔ رانا صاحب آپ کا لیڈر جب باہر کے ملکوں میں جاتا ہے تو پورا جہاز بھر کرلے جاتا ہے اور لاکھوں روپے روزانہ کے کرایہ کے ہوٹل میں قیام کرتا ہے اور اسی قوم کے قومی خزانے کو کروڑوں روپوں کو جھٹکا دیتا ہے جس قوم کا پچاس فی صد حصہ غربت کی لکیر سے نیچے کی سطح پر زندگی گزار رہا ہے اس کا رہنما یہ عیاشیاں کرتا ہے۔
بات ہورہی تھی کوے کی ہوشیاری اور فاختہ کے سیدھے پن کی یا سادگی کی کہ کس طرح انڈوں پر بھوکی پیاسی بیٹھی انڈے سیتی رہتی ہے اور مادہ کوا بڑے آرام سے اپنے بچوں کی ماں بن جاتی ہے۔
آج ملک کی صورت حال اور ملک میں موجود درجن بھر سے زیادہ سیاستدانوں کا کردار بھی کوے اور فاختہ کی محنتوں اور مذکورہ محاورے پر پورا ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔ ملک کے وزیراعظم اور ان کے خاندان کی لوٹ مار پر اگر کسی سیاستداں یا کچھ سیاستدانوں نے دار کیا تو یہ سراج الحق صاحب، عمران خان صاحب اورشیخ رشید صاحب تھے۔ گریبی کے طور پر یا شامل باجا کی صورت میں ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کے کردار کو بھی سامنے رکھا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب زیادہ تر باہر رہتے ہیں وہ جب پاکستان آتے ہیں ایک طلاطم پیدا کرتے ہیں۔ اپنے ماڈل ٹائون کے چودہ کارکنوں کو جن کو شہید کردیا گیا یا ان نوے کارکنوں کو جن کو زخمی کردیا گیا یاد کرتے ہیں معاف نہ کرنے کا اعلان کرتے ہیں اور پھر واپس چلے جاتے ہین۔
سراج الحق صاحب سچ اور حق کا سورج بن کر قوم کی راہوں کو منور کرنے کی کوشش میں مصروف رہے۔ شیخ صاحب چیختے چلاتے رہے جبکہ دوسرے سیاستدان مثلاً آصف علی زرداری ، بلاول زرداری، سید خورشید شاہ ، اعتزاز احسن، شہلا رضا اور دوسرے بہت سے لوگ اور سیاسی شخصیات دور سے بیٹھ کر ہلکے پھلکے انداز کے ساتھ پاناما لیکس کے بھنور میں ہاتھ پیر مارتے نواز شریف اور ان کے خاندان کو کوستے اور تنقید کا نشانہ بناتے رہے یہ وہ لوگ ہیں جو عدالت عظمیٰ کے دروازے پر نہیں گئے۔ دور دور سے تماشادیکھتے رہے۔ جب عمران خان نے اسی نعرے پر قوم کو بیدار کیا کہ نواز شریف یا تو اپنے بے پناہ مال اور دولت کی تلاشی دیں یا پھر استعفا دیں اور اسی مقصد کے لیے عمران خان نے 126دنوں کا تاریخی دھرنا دیا’’چچا زاد بھائی‘‘بھی کافی عرصہ تک عمران خان کے ساتھ رہے تو پی پی پی کے رہنما اور قائد حزب اختلاف اسمبلی کے فلور پر نواز شریف کا ’’جمہوریت‘‘کی خاطر ہر طرح سے ساتھ دیتے رہے اور ان کے آنسو پوچھتے رہے کہ میاں صاحب آپ اقتدار پر قائم رہیں نہ غم کریں نہ روئیں ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ آج یہی لوگ سراج الحق صاحب اور عمران خان کی انتھک جدوجہد کے نتیجے میں نواز شریف کے ہل جانے والے سنگھاسن کو دیکھتے ہوئے نواز شریف کی دوستی کو چھوڑ کر فاختہ کے انڈے کھانے نکل پڑے ہیں۔
بلاول زرداری نے ایک سال پہلے تک گونوازگو کا نعرہ نہیں لگایا تھا۔ لاہور کے ایک جلسہ میں اسی نوجوان نے یہ نعرہ لگایا کہ ’’مودی کا جو یار ہے۔ غدار ہے غدار ہے‘‘اور پھر خاموشی چھاگئی۔ بلاول کے والد آصف زرداری صاحب نے حالات کو دیکھتے ہوئے ایک نیا نعرہ دیا۔’’مک گیا تیرا شو۔گو نواز گو‘‘وہ بڑے خوش رہے ہونگے کہ آج میں نے عمران خان کے مقبول نعرہ ’’گو نواز گو‘‘سے بڑا نعرہ قوم کو دیا ۔
یہ باشعور قوم اگر حالات کا بغور جائزہ لے تو اس نتیجے پر ضرور پہنچے گی کہ ایک ہانڈی بہت محنت سے عمران خان نے پکائی اس کی پوری پارٹی نے پکائی جماعت اسلامی نے اسی ہانڈی کے چولھے کی آنچ کو تیز کیا اور کھانے کے لیے آصف زرداری صاحب اور بلاول زرداری اور ان کے بہت سارے دوست دوڑ پڑے بالکل اس محاورہ کے مطابق کہ ’’دکھ سہیں بی فاختہ کوے انڈے کھائیں‘‘پتا نہیںملک کے ان سیاسی کووّں کو فاختہ کے یہ انڈے ہضم بھی ہونگے یا نہیں۔