ایک ایسے وقت میں پاکستان کے ایک مرکزی اور مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھے جانے والے شہر میں دھماکا ہوگیا جب قوم پاناما کیس کے مقدمے میں عدالت عظمیٰ کے فیصلے کی منتظر ہے۔ حکومت اور فوج نے رد الفساد اور آپریشن خیبر 4 میں تیزی پیدا کی ہوئی ہے۔ ہر دہشت گرد گروپ کے خلاف کارروائی ہورہی ہے اور دہشت گردوں نے 9 پولیس اہلکاروں سمیت 26 افراد کو شہید کردیا۔ یہ واقعہ بھی ریڈزون میں پیش آیا جس کا مطلب ہے یہاں سیکورٹی شہر کے دیگر علاقوں کی بہ نسبت زیادہ بہتر اور سخت ہوگی لیکن یہاں دھماکا ہونے کا واضح مطلب یہ ہے کہ حکمرانوں اور ان کی ایجنسیوں کی توجہ کہیں اور ہے۔ ظاہر ہے توجہ وہیں ہے جہاں عوام کی ہے۔ لیکن اس چکر میں روز مرہ معاملات اور سیکورٹی جیسے بنیادی کام کی جانب سے غفلت تو مجرمانہ فعل ہے۔ ہر دھماکے کی طرح اس مرتبہ بھی پولیس حکام نے پہلے مرحلے میں ہی اسے خودکش قرار دے دیا۔ ہوسکتا ہے ایسا ہی ہو لیکن دھماکے کو خودکش قرار دینے میں اب نامعلوم پر الزام ڈالنے سے بھی زیادہ آسانیاں اور ایجنسیوں کے لیے فوائد ہیں۔ مثال کے طور پر نامعلوم کو معلوم کرنے کی ذمے داری تو بہر حال پولیس اور ایجنسیوں ہی کی ہے اس سے بہتر طریقہ جنرل پرویز کے دور میں ہاتھ آگیا ہے۔ دھماکا ہوتے ہی خودکش قرار دے دیا جاتا ہے پہلے پہل تو وہ بھی نامعلوم ہوتا تھا لیکن اب چند لمحوں میں اس کا سارا کچا چٹھا آجاتا ہے۔ اس حوالے سے یہ طریقۂ واردات معروف ہے۔ کسی حکومتی ایژجنسیاں واردات کی تفتیش کے بجائے پہلے سے لاپتا افراد میں سے کسی کو لاکر اس کے سر پیر انگلیوں وغیرہ کے نشانات حاصل کرلیتی ہیں اور کبھی اس کا سر بھی لے آتی ہیں اور یوں پورا کیس داخل دفتر ہوتا ہے۔کسی لشکر، کسی جہادی گروپ یا کسی فرقہ پرست تنظیم کے خلاف کیس مضبوط ہوجاتا ہے، تفتیش بھی نہیں کرنی پڑتی۔ تاہم ابھی پولیس نے حتمی طور پر اسے خودکش حملہ نہیں کہا ہے گویا سارے راستے کھلے رکھے ہیں۔ ایک خبر ہے کہ موٹر سائیکل رکتے ہی دھماکا ہوا۔ ایک خبر ہے کہ گاڑی میں دھماکا ہوا اور پولیس ہی کے مطابق فدا حسین نامی 20 سالہ لڑکے نے یہ دھماکا کیا ہے جو پیدل آیا تھا یعنی موٹر سائیکل اور گاڑی کا نظریہ مسترد۔ یہ ساری باتیں ہر حادثے اور دہشت گردی کے ہر واقعے پر ہوتی ہیں۔ تضادات بھی سامنے آتے ہیں لیکن بے نظیر بھٹو قتل کیس کی طرح جائے وقوع کی دھلائی معاملے کو مشتبہ بنارہی ہے۔ بے نظیر کیس میں تو واقعے کے کافی دیر بعد ایسا کیا گیا تھا لیکن یہاں تو زخمی سڑک پر ہی تھے کہ سڑک کی دھلائی شروع ہوگئی۔ اس وجہ سے معاملہ مشکوک ہوگیا ہے۔ لاہور دھماکے کے حوالے سے بعض مبصرین نے رائے دی ہے کہ یہ عدالت عظمیٰ میں حکومت کے خلاف مقدمات میں متوقع فیصلے کی روشنی میں توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔ اس دھماکے کو ایک اور تناظر میں دیکھا جارہاہے جو زیادہ قرینِ قیاس ہے اور وہ ہے افغانستان اور بھارت کا ملوث ہونا۔ اتفاق ہے کہ جس روز لاہور میں دھماکا ہوا اسی روز کابل میں بھی ایک دھماکا ہوا اسے بھی خودکش ہی قرار دیا گیا۔ اس دھماکے میں ڈپٹی چیف ایگزیکٹو کے گھر کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ تاہم محافظ نے کوشش ناکام بنادی۔ لاہور اور کابل دھماکوں میں مماثلت یہ ہے کہ دونوں کی ذمے داری کالعدم تحریک طالبان نے قبول کی ہے اور دونوں ہی نے سیکورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا۔ یہ بھی عجیب بات ہے کہ ایسے واقعات جن کی عوام بھی مذمت کریں اور مجموعی طور پر پورا معاشرہ جس کام کو غلط قرار دے اس کی ذمے داری ایسی تنظیمیں فوراً قبول کرلیتی ہیں۔ یہ سوچنے کی بات ہے۔ مزید سوچنے کی بات یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جتنے آپریشن اور جتنے دعوے کیے جارہے ہیں دہشت گردی کے واقعات بھی اسی رفتار سے بڑھتے جارہے ہیں۔ لاہور دھماکے کے اگلے روز آرمی چیف نے کہا کہ ہم نے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے رابطے توڑدیے ہیں۔ تو پھر بغیر رابطوں کے دھماکا کرنے والے اس ملک کا کیا حال کریںگے۔ 26 افراد جان سے گئے۔ حکومت نے نوٹس لے لیا، تحقیقات کا حکم دے دیا اور واقعے کی مذمت کردی۔ امید ہے کچھ دن کے لیے امن وامان رہے گا۔