بارے کچھ آم کا بیاں ہو جائے

289

zc_MFان دنوں برسات کا حبس زدہ اور چپچپاتا موسم ہے ۔ برقی رو چلی جائے تو پورا جسم پسینے میں نہا جاتا ہے اور دم گھٹنے لگتا ہے اس موسم میں اگر کوئی چیز دل کو ڈھارس دیتی ہے تووہ آم ہے جسے پھلوں کا بادشاہ بھی کہتے ہیں ۔ یہ بادشاہ موسم برسات میں دلوں پہ حکمرانی کرتا اور بے کیف دنوں کو رنگین بناتا ہے ۔ غالب نے آم کی ایک ہی خوبی بیان کی تھی کہ میٹھے ہوں اور بہت سارے ہوں۔غالب صرف آم کی مٹھاس اور اس کی تعداد کے قائل تھے ۔ تعداد سے یاد آیا کہ ہمارے بچپن میں آم تول کر نہیں ، گن کر فروخت ہوتے تھے اور سیکڑے کے حساب سے ان کی بولی لگتی تھی۔ ان کی جسامت کے اعتبار سے گریڈنگ کی جاتی تھی ۔ مثلاً چھوٹے آم دو روپے سیکڑہ، بڑے اور موٹے آم تین روپے سیکڑ غالب کا زمانہ ہمارے زمانے سے بہت پہلے کا ہے لیکن ہمارا خیال ہے کہ ان کے زمانے میں بھی یہی طریقہ رائج تھا ۔ لوگ سیکڑے کے حساب سے آم خریدتے اور اس سے لطف اندوز ہوتے تھے ۔ اب تو ہر چیز تول کر بیچنے کا رواج ہو گیا ہے ۔ آم بھی تول کر فروخت ہوتے ہیں ۔ اس طرح آم کھانے اور پیڑ گننے کا محاورہ بھی بے محل ہو گیا ہے ۔ کسی کو کیا پڑی ہے کہ وہ آم بھی کھائے اور پیڑ بھی گنے ۔ اب تو قلمی آموں کا زمانہ ہے جو پکنے سے پہلے درختوں سے اتار لیے جاتے ہیں اور پیٹیوں میں بند کر کے ان پر کھولنے کی تاریخ لکھ دی جاتی ہے ۔ مقررہ تاریخ کو پیٹی کھولو تو آم تیار ملتے ہیں اور اہل ذوق کی لذت کا سامان کرتے ہیں ۔ پاکستان آم کی پیدا وار میں صف اول کے ملکوں میں شمار ہوتا ہے ۔ اس کے قلمی آموں کا جواب نہیں ، چونسا ، سندھڑی ، دسہری ، لنگڑا ، انور رٹول ۔ لنگڑے سے یاد آیا کہ اس آم کا تو علامہ اقبال کے زمانے میں بھی بہت چرچا تھا۔ اکبر الہ آبادی نے ! علامہ کو لنگڑا ارسال کیا تھا جس پر اقبال نے کہا: ’’الٰہ آباد سے چلا لنگڑا لاہور تک پہنچا۔‘‘ اکبر الہ آبادی نے لنگڑے کی تعریف میں اشعار بھی کہے ہیں ۔ آم واحد پھل ہے جسے لوگ تحفے میں دوستوں کو بھیجتے ہیں ۔ حکمرانوں کی سطح پر بھی ’’آم ڈپلومیسی‘‘ کا بڑا چرچا ہے ۔ پاکستان اور بھارت میں ابتدا ہی سے دشمنی چلی آ رہی ہے ، لیکن پاکستانی حکمرانوں نے اس دشمنی کو دوستی میں بدلنے کے لیے آم کا حربہ بھی آزمایا ہے ۔ بھارتی حکمرانوں نے آم تو کھا لیے لیکن دوستی کی ہامی نہ بھری ، شاید جنرل ضیا الحق کے زمانے میں کرکٹ ڈپلو میسی کے ساتھ آم ڈپلو میسی کو بھی آزمایا گیا تھا لیکن وہ بھارتی حکمرانوں کو زیر دام لانے میں کچھ زیادہ کامیاب نہ ہوئے البتہ انہیں خوف اور اندیشوں میں ضرور مبتلا کیے رکھا ۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہی بھارت کو یہ پیغام بھیجا گیا کہ پاکستان ایک ایٹمی قوت بن چکا ہے اور اس کے ساتھ مہم جوئی بھارت کو مہنگی پڑے گی ۔ جنرل ضیاء الحق کے بعد آنے والے تمام پاکستانی حکمران بھارت کو آم کے تحفے بھیجتے رہے لیکن کوئی حکمران بھی دو طرفہ تعلقات میں آم کی مٹھاس نہ گھول سکا ۔ میاں نواز شریف تین مرتبہ ملک کے وزیر اعظم بنے ۔ انہوں نے بھی آم کی پیٹیاں خوب بھیجیں لیکن ذاتی دوستیاں گانٹھنے کے سوا وہ ملک کی کوئی اور خدمت نہ کر سکے ۔
خیر چھوڑیے اس حصے کو ’’آم‘‘ کاہماری داخلی سیاست میں بھی خوب عمل دخل رہا ہے ۔ اللہ بخشے نوابزادہ نصر اللہ خان جب تک زندہ رہے اپنے احباب کو ہر سال اپنے آموں کے باغات کے تحفے ضرور بھیجتے تھے ۔لاہور کے کچھ سینئر اخبار نویس بھی ان کی اس سوغات سے فیض یاب ہوتے تھے ۔ اب بھی کچھ سیاستدان اخبار نویسوں کے ساتھ اپنی پی آر شپ برقرار رکھنے کے لیے آم کا سہارا لیتے ہیں ۔ یہ ایک مستقل روایت ہے جو مدتوں سے چلی آ رہی ہے ۔ پندرہ سولہ سال پہلے جب ہم اخبار میں ملازم تھے تو ہر سال آم کے موسم میں اسلام آباد کے ایک سینئر سیاستدان کی طرف سے ادارتی عملے کے تمام ارکان کو آم کی پیٹیاں بھیجی جاتی تھیں ، ہر پیٹی پر نام لکھا ہوتا تھا اس لیے کسی ہیرا پھیری کی گنجائش نہ تھی اور سب ساتھی دفتر سے نیچے اترتے ہوئے استقبالیہ سے اپنا تحفہ وصول کر کے خوشی خوشی گھر لے جاتے تھے ۔ ممکن ہے اب بھی اس روایت پر عمل ہو رہا ہو ۔ اخبار نویسوں میں آم پارٹی کی روایت بھی ایک مدت سے چلی آ رہی ہے ۔ جب تک اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب قائم نہیں ہوا تھا ، وفاقی دار الحکومت میں راولپنڈی پریس کلب کو مرکزی حیثیت حاصل تھی ۔ا س پریس کلب نے کم و بیش تمام قومی زعماء کی میز بانی کی ہے ۔ا یٹمی سائنسدان کی حیثیت سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رونمائی اسی پریس کلب میں ہوئی تھی ۔ ہمارے دوست اور سینئر صحافی برادرم نواز رضا اس تقریب کے مہتمم تھے نواز رضا دس بارہ سال تک مسلسل راولپنڈی پریس کلب کے صدر رہے ۔ انہوں نے پریس کلب میں آم پارٹی کی طرح بھی ڈالی تھی ۔ ہر سال پریس کلب کے سبزہ زار میں آم پارٹی کا اہتمام ہوتا تھا جس کے لیے نواز رضا کوئی نہ کوئی اسامی ڈھونڈ لیتے تھے ۔ ورنہ ’’چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں۔‘‘ بیچارے اپنے پلے سے تو پارٹی کرنے سے رہے ۔ آم پارٹی میں سب دوستوں سے ملاقات ہو جاتی تھی ۔ جو دوست پریس کلب کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی زحمت نہیں کرتے تھے وہ بھی آ موجود ہوتے تھے اور آموں کے ساتھ خوب انصاف کرتے تھے ۔ نیشنل پریس کلب اسلام آباد فعال ہونے کے بعد راولپنڈی پریس کلب کی آم پارٹیاں قصۂ ماضی بن گئیں ۔ اسلام آباد پریس کلب بہت کم جانا ہوتا ہے اگرچہ اس کی ممبر شپ بر قرار ہے ۔ سنا ہے وہاں بھی آم پارٹی کا اہتمام ہوتا ہے ۔ صحافی آم کھانے والے نہیں انہیں آم کھلانے والے بہتیرے ہیں ۔ ’’ آم کے آم گٹھلیوں کے دام ‘‘ یہ محاورہ تو ہم سب نے سن رکھا ہے جو لوگ صحافیوں کو آم کھلاتے ہیں وہ مفت یہ خدمت انجام نہیں دیتے ، گٹھلیوں کے دام بھی وصول کر لیتے ہیں لیکن طریقۂ وار دات ذرا مختلف ہوتا ہے ۔
بہر کیف ان دنوں آم کا موسم ہے اور برسات بھی اپنی چھب دکھا رہی ہے جب بادل گھرے ہوں اور کم کم بادو باراں ہو تو برف کے پانی میں آم ڈبو کر بیٹھ جائیے اور آم کھانے بلکہ چوسنے کا لطف اٹھائیے لیکن شرط وہی غالب والی کہ آم میٹھے ہوں اور ڈھیر سارے ہوں ۔