خیر چھوڑیے اس حصے کو ’’آم‘‘ کاہماری داخلی سیاست میں بھی خوب عمل دخل رہا ہے ۔ اللہ بخشے نوابزادہ نصر اللہ خان جب تک زندہ رہے اپنے احباب کو ہر سال اپنے آموں کے باغات کے تحفے ضرور بھیجتے تھے ۔لاہور کے کچھ سینئر اخبار نویس بھی ان کی اس سوغات سے فیض یاب ہوتے تھے ۔ اب بھی کچھ سیاستدان اخبار نویسوں کے ساتھ اپنی پی آر شپ برقرار رکھنے کے لیے آم کا سہارا لیتے ہیں ۔ یہ ایک مستقل روایت ہے جو مدتوں سے چلی آ رہی ہے ۔ پندرہ سولہ سال پہلے جب ہم اخبار میں ملازم تھے تو ہر سال آم کے موسم میں اسلام آباد کے ایک سینئر سیاستدان کی طرف سے ادارتی عملے کے تمام ارکان کو آم کی پیٹیاں بھیجی جاتی تھیں ، ہر پیٹی پر نام لکھا ہوتا تھا اس لیے کسی ہیرا پھیری کی گنجائش نہ تھی اور سب ساتھی دفتر سے نیچے اترتے ہوئے استقبالیہ سے اپنا تحفہ وصول کر کے خوشی خوشی گھر لے جاتے تھے ۔ ممکن ہے اب بھی اس روایت پر عمل ہو رہا ہو ۔ اخبار نویسوں میں آم پارٹی کی روایت بھی ایک مدت سے چلی آ رہی ہے ۔ جب تک اسلام آباد میں نیشنل پریس کلب قائم نہیں ہوا تھا ، وفاقی دار الحکومت میں راولپنڈی پریس کلب کو مرکزی حیثیت حاصل تھی ۔ا س پریس کلب نے کم و بیش تمام قومی زعماء کی میز بانی کی ہے ۔ا یٹمی سائنسدان کی حیثیت سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رونمائی اسی پریس کلب میں ہوئی تھی ۔ ہمارے دوست اور سینئر صحافی برادرم نواز رضا اس تقریب کے مہتمم تھے نواز رضا دس بارہ سال تک مسلسل راولپنڈی پریس کلب کے صدر رہے ۔ انہوں نے پریس کلب میں آم پارٹی کی طرح بھی ڈالی تھی ۔ ہر سال پریس کلب کے سبزہ زار میں آم پارٹی کا اہتمام ہوتا تھا جس کے لیے نواز رضا کوئی نہ کوئی اسامی ڈھونڈ لیتے تھے ۔ ورنہ ’’چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں۔‘‘ بیچارے اپنے پلے سے تو پارٹی کرنے سے رہے ۔ آم پارٹی میں سب دوستوں سے ملاقات ہو جاتی تھی ۔ جو دوست پریس کلب کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی زحمت نہیں کرتے تھے وہ بھی آ موجود ہوتے تھے اور آموں کے ساتھ خوب انصاف کرتے تھے ۔ نیشنل پریس کلب اسلام آباد فعال ہونے کے بعد راولپنڈی پریس کلب کی آم پارٹیاں قصۂ ماضی بن گئیں ۔ اسلام آباد پریس کلب بہت کم جانا ہوتا ہے اگرچہ اس کی ممبر شپ بر قرار ہے ۔ سنا ہے وہاں بھی آم پارٹی کا اہتمام ہوتا ہے ۔ صحافی آم کھانے والے نہیں انہیں آم کھلانے والے بہتیرے ہیں ۔ ’’ آم کے آم گٹھلیوں کے دام ‘‘ یہ محاورہ تو ہم سب نے سن رکھا ہے جو لوگ صحافیوں کو آم کھلاتے ہیں وہ مفت یہ خدمت انجام نہیں دیتے ، گٹھلیوں کے دام بھی وصول کر لیتے ہیں لیکن طریقۂ وار دات ذرا مختلف ہوتا ہے ۔
بہر کیف ان دنوں آم کا موسم ہے اور برسات بھی اپنی چھب دکھا رہی ہے جب بادل گھرے ہوں اور کم کم بادو باراں ہو تو برف کے پانی میں آم ڈبو کر بیٹھ جائیے اور آم کھانے بلکہ چوسنے کا لطف اٹھائیے لیکن شرط وہی غالب والی کہ آم میٹھے ہوں اور ڈھیر سارے ہوں ۔