انصاف کے نام پر ایک اور زیادتی

228

ملتان میں ایک بار پھر انسانیت سوEdarti LOHز واقعہ پیش آیا۔ کسی خاتون سے زیادتی پر پنچایت نے فیصلہ دیا کہ زیادتی کرنے والے کی بہن کے ساتھ زیادتی کی جائے۔ پنچایت کے فیصلے پر عمل ہوا اور زیادتی کا جواب زیادتی سے دیا گیا۔ ایسے ظالمانہ فیصلے کرنے والی پنچایت کے تمام ارکان کو تو پھانسی پر چڑھا دینا چاہیے جو انصاف کے نام پر درندگی کی پشت پناہی کرتے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ جس دوسری لڑکی کے ساتھ زیادتی کی گئی اس کا کیا قصور تھا؟ وہ تو رو رو کر انصاف کی بھیک مانگ رہی ہے۔ پولیس نے پنچایت کے کچھ ارکان کو گرفتار تو کیا ہے لیکن زیادتی کرنے والا فرار ہوگیا ہے۔ خبر میں یہ بھی واضح نہیں ہے کہ زیادتی کے پہلے مجرم کے ساتھ قانون نے کیا سلوک کیا۔ نام نہاد پنچایتوں کا یہ پہلا ظالمانہ فیصلہ نہیں ہے بلکہ ایسے کئی واقعات سامنے آچکے ہیں جن میں پنچایتوں اور جرگوں کے ارکان خود مجرم ثابت ہوئے ہیں ۔ انصاف کے ان خود ساختہ علم برداروں کو اگر کڑی سزائیں مل چکی ہوتیں تو شاید یہ سلسلہ رک جاتا۔ مختاراں مائی کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی تھی جو یقینا سنگین جرم تھا۔ لیکن اس پنچایت کے ارکان کو کیا سزا ملی ؟ ممکن ہے وہ بہت پہلے بری ہوچکے ہوں ۔ مختاراں مائی کے واقعے کو تو این جی اوز نے بہت شہرت دی جس کی وجہ سے اس نے فوائد بھی حاصل کیے۔ لیکن بڑے سے بڑا فائدہ ایک عورت کی عصمت کا بدل نہیں ہوسکتا۔ ممکن ہے کہ ملتان کے واقعے پر وزیر اعلیٰ پنجاب بھی نوٹس لے لیں لیکن ہم پھر مطالبہ کریں گے کہ ایسی پنچایتوں کے ارکان کو سخت ترین سزائیں دی جائیں ۔ پنچایتیں اس لیے بنائی گئی تھیں کہ علاقے کے معززین مقامی جھگڑوں کو انصاف کے تقاضوں کے مطابق وہیں کے وہیں فیصل کردیں۔ اور فریقین ان پر اعتبار بھی کرتے تھے۔ لیکن اب پنچایتیں خود ظلم و زیادتی کو فروغ دے رہی ہیں ۔ اس کی ایک وجہ پولیس کی غفلت بھی ہے۔