پاک فوج کے سالار جنرل قمر باجوہ نے لاہور میں خونریز دھماکے کے بعد سیکورٹی اجلاس کی صدارت کی۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں اور دہشت گردی کو پالیسی کے طور پر استعمال کررہی ہیں ۔ جنرل باجوہ کا کہنا تھا کہ لاہور دھماکے جیسے واقعات ہمارے حوصلے پست نہیں کرسکتے۔ انہوں نے جو کہا اس میں کوئی شک تو نہیں ہے لیکن کئی بار یہ دعوے کیے جاچکے ہیں کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی اور پھر فوراً ہی کوئی نئی واردات ہو جاتی ہے چنانچہ ایسے دعووں سے گریز کرنا چاہیے۔ ان کی وجہ سے عوام مطمئن ہو جاتے ہیں مگر پھر مایوسی میں ڈوب جاتے ہیں ۔ اس بار یہ دعویٰ نہیں کیا گیا ، جنرل باجوہ نے احتیاط سے کام لیتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے باہمی روابط کا خاتمہ کردیں گے۔ لاہور دھماکے کے بارے میں بھی یہی کہا جارہا ہے کہ حملہ آور افغانستان سے آئے تھے۔ خود افغانستان بھی دہشت گردی کا شکار ہے لیکن وہ اس کے تدارک کے لیے پاکستان سے تعاون کے بجائے پاکستان ہی پر ذمے داری عاید کردیتا ہے۔ جنرل باجوہ نے دشمن ممالک کی خفیہ ایجنسیوں کا حوالہ دیا ہے۔ بدقسمتی سے افغانستان میں بیٹھے ہوئے را کے ایجنٹ پاکستان کے خلاف افغان سرزمین استعمال کررہے ہیں ۔ اب تو اس میں اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کی شمولیت بھی خارج از امکان نہیں کیوں کہ اپنے دورہ اسرائیل میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کھل کر کہہ چکے ہیں کہ پاکستان اسرائیل اور بھارت دونوں کا مشترکہ دشمن ہے۔ چنانچہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے میں بھارت کو اسرائیلی ایجنسیوں کا تعاون بھی حاصل ہوگا۔ پاکستان کے دشمنوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے اور اس وقت پڑوسی ممالک میں چین کے سوا کوئی دوست نظر نہیں آرہا۔ اسے خارجہ پالیسی کی ناکامی بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہو کہ پاکستان میں کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں ہے۔ دوسری طرف اس کے مقابل بھارت جیسا مکار دشمن ہے جو کسی اصول و ضابطے کا پابند نہیں ۔ ایران اور افغانستان مسلمان ممالک ہیں اور دونوں ہی طویل ثقافتی و تہذیبی رشتے میں بندھے ہوئے ہیں لیکن ان کے بھی اپنے مفادات ہیں ۔