حبیب الرحمن
قطر سعودی کشیدگی ایسا موضوع ہے جس پر میڈیا میں خوب خبریں شائع ہورہی ہے اور تقریباً سبھی کا یہ ماننا ہے کہ سعودی عرب نے قطر پر پابندی اس لیے لگائی کیونکہ وہ ایران سے تعلقات بڑھا رہا تھا اور اخوان المسلمین کی حمایت کررہا ہے تھا۔ جب کہ حکومت ریاض ان دونوں کو خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتی ہے۔
قطر سعودی کشیدگی میں یہ بات کافی اہمیت رکھتی ہے کہ دونوں کے تعلقات میں تلخی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ ریاض کے بعد پیدا ہوئی یا منظر عام پر آئی ہے۔ گرچہ خلیجی ممالک کے صفوں میں موجودہ انتشار مکمل طور پر امریکا کے مفاد میں نہیں ہے مگر موجودہ حالات کو امریکی سیاست کا نتیجہ قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ امریکی صدر نے سعودی عرب میں جو لہجہ استعمال کیا تھا اس سے فرقہ واریت کی بو آتی ہے۔ انہوں نے ایران کو خطے کی تمام مشکلات کا مرکز قرار دیا تھا۔
امریکی انتخابات کے دوران ٹرمپ کی سعودی مخالف بیان بازیوں سے سہمے ہوئے سعودی حکام میں ٹرمپ کے سفر نے ایک نئی روح پھونک دی اور ان میں اتنی جرات پیدا ہوگئی کہ وہ خطے کے مسائل میں چودھراہٹ کا مظاہرہ کرنے لگے۔ اسی چودھراہٹ کی بنیاد پر نہ صرف قطر کی مخالفت کی بلکہ خطے کے بعض دیگر ممالک کو بھی اپنے منصوبے میں شریک بنالیا۔ جس طرح سعودی عرب نے قطر کے خلاف اقدامات انجام دیئے ان سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سعودی عرب اور اس کے ہمنوا ممالک ایک عرصے سے قطر کا ناطقہ بند کرنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے۔
بہرحال اس بات کی جانب توجہ ضروری ہے کہ سعودی عرب نے قطر کے ساتھ ایسا کیوں کیا؟ ذیل میں کچھ اسباب بیان کیے جارہے ہیں ملاحظہ کریں:
1۔ قطر، عمان اور کویت نے ایران کے تعلق سے سعودی عرب کی پالیسی پر تنقید کی تھی۔ بلکہ قطر اور عمان نے تو باقاعدہ طور پر ایران سے معاشی تعلقات کو مزید بہتر بنانے اعلان کردیا تھا۔
2۔ دوسرا ایک اہم مسئلہ جس کی طرف کم توجہ کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ قطری حکام نے قبیلہ تمیم کے سنیوں اور شیعوں کو متحد کرنے میں کافی کام کیا تھا۔ یہ قبیلہ نہایت اہم قبیلہ ہے جس کے بعض افراد سعودی عرب، یمن اور اردن میں بھی موجود ہیں۔ اسی یکجہتی کے تحت قطری فرمانروا کے والد نے اپنے بیٹے کا نام تمیم بھی رکھا تھا اور اسے قبیلہ تمیم کا ایک رکن قرار دیا تھا۔ اس اقدام کی وجہ سے اہل تشیع اور اہل سنت کے درمیان کافی قربت بڑھی جب کہ دوسری طرف آل سعود شیعوں کو مغربی ایشیا کی تمام مشکلات کا مرکز و منبع قرار دینے کی کوشش کررہے ہیں۔ حالانکہ اس قبیلے کے افراد سعودی عرب میں بھی بستے ہیں جو ضرورت پڑنے پر قطر کا ساتھ دے سکتے ہیں۔
3۔ قطر سے سعودی عرب کی دشمنی کی تیسری وجہ اخوان المسلمون ہے۔ کیونکہ ناصر کے زمانے میں جب مصر میں اخوانی اراکین پر ظلم ڈھائے جارہے تھے تو وہ مصر چھوڑ کر مختلف خلیجی ممالک منتقل ہوگئے تھے۔ اس دوران اخوان المسلمون کے بعض اراکین نے حرمین شریفین کے انتظامات پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ حرمین شریفین کے انتظامات امت مسلمہ کو سونپتے ہوئے آل سعود کی اجارہ داری کو ختم کرنا چاہیے۔ اس بیان کے بعد سعودی شہزادوں نے اخوان المسلمون کو اپنے لیے خطرہ قرار دیا۔ جب کہ دوسری طرف قطر اخوان المسلمون کی مسلسل حمایت کرتا رہا ہے جس کی وجہ سے سعودی حکام ہمیشہ نالاں رہے۔
یہ وہ اہم اسباب ہیں جن کی وجہ سے سعودی عرب قطر کے خلاف تمام اسلامی ممالک کو متحد کرنے کی کوشش کررہا ہے جب کہ قطر خلیج فارس تعاون کونسل کے اہم ممالک میں سے ہے اسی لیے سعودی عرب کو یکے بعد دیگرے تمام مراحل میں منھ کی کھانی پڑرہی ہے۔ اور بعید نہیں ہے کہ جس ٹرمپ پر وہ اعتماد کرکے قطر کے خلاف سنگین پابندیاں عائد کررہا ہے اسی ٹرمپ کی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑجائے کیونکہ خطے میں امریکا کا اصلی مرکز دوحہ ہے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے اس کھیل میں سعودی عرب زیادہ دیر تک قطر کے سامنے نہیں ٹک پائیگا۔ لہٰذا اسے قطر سے تعلقات کی بحالی پر نظر ثانی کرنا ہی پڑے گی۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ سعودی عرب جتنا زیادہ قطر کے خلاف پابندیاں عائد کرتا جائیگا اتنا ہی زیادہ اسے نقصان اٹھانا پڑیگا۔
ایک نقصان تو اسے ہو ہی گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ امریکی صدر سعودیہ سے کھربوں روپوں کا ایک چیک اسلحہ خریدنے کی مد میں ہاتھ کے ہاتھ لے ہی گئے ہیں۔ یہ تو پہلی قسط ہے، ابھی معلوم نہیں اور کتنے چیک باقی ہوں۔ معاہدے کے مطابق اسلحہ تو سعودی عرب کو خریدنا ہی خرید نا ہے رہی جنگ کی بات تو وہ تو کسی بھی وقت چھڑ سکتی ہے۔ تمام مسلم ممالک کو یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی کہ امریکا یا دیگر یورپی ممالک کی اس وقت سب بڑی تجارت ہتھیاروں کی فروخت ہی ہے۔ جہاں جہاں بھی مسلمانوں کا مسلمانوں سے ٹکراؤ کا معاملہ ہے، ہر دو جانب ہلکے اور بھاری ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں۔ دونوں متحارب گروہوں کو ہتھیار کون سپلائی کر رہا ہے؟ جن جن ممالک میں جنگی ہتھیار استعمال ہو رہے ہیں کیا ان ممالک میں اس قسم کے ہتھیار بنانے کی صلاحیت ہے؟ پھر یہ کہ یہ ہتھیار اتنے چھوٹے بھی نہیں کہ جیبوں یا بریف کیسوں میں رکھ کر لائے جاسکتے ہوں اور نہ ہی اس قدرارزاں قیمت کہ ان کو چند سکوں کے عوض خریدا جاسکتا ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب جن جن سے تعلقات کشیدہ رکھنا چاہتا ہو یا جن سے جنگ کو ضروری سمجھتا ہو ان سے امریکا بھی الجھنا چاہتا ہو اس لیے ممکن ہے کہ جنگ کی صورت میں امریکا ان کو بھی جنگی سازوسامان مہیا کرکے ان کی دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کے بہانے اپنے مقاصد حاصل کرے۔ اس وقت امریکا اور دیگر ممالک کا جو منصوبہ ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کو مسلمانوں کے ساتھ ہی مصروف ’’جہاد‘‘ رکھا جائے جس میں وہ پندرہ سولہ سال سے کامیاب نظر آرہے ہیں۔ جس طرح اسلامی ممالک میں لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن کر ایک دوسرے پر خود کش حملے کرنے میں مصروف نظر آرہے ہیں اس کو دیکھ کر یہ بات کہنا کوئی مشکل نہیں کہ اگر مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نہ بنے ہوئے ہوتے اور ایک دوسرے کے خلاف خود کش حملے نہ کر رہے ہوتے توپھر یورپ اور امریکا کی کیا صورت حال ہوتی۔ ان پندہ سولہ برسوں میں جتنے خود کش حملوں کا سامنا خود اسلامی ممالک میں مسلمانوں کو مسلمانوں سے رہا ہے اگر اس کا دس فیصد بھی امریکا اور یورپ والوں کو کرنا پڑجاتا تو صورت حال یکسر مختلف ہوتی۔ اس لحاظ سے یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ امریکا اور دیگر یورپین ممالک اپنی حکمت عملی میں تا حال بہت کامیاب نظر آرہے ہیں۔
جب تک ساری دنیا کے مسلمان اس بات کو اچھی طرح نہیں سمجھیں گے اور آپس میں الجھتے رہیں گے اسلام دشمن ممالک اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب و کامران ہوتے رہیں گے۔
آئل ٹینکر ڈرائیور اور وزیراعظم
بینا حسین خالدی ایڈووکیٹ
وزیراعظم میاں محمد نواز کے ڈھٹائی پر مبنی یہ بیانات کہ ’’وہ استعفیٰ نہیں دیںگے‘‘ پڑھنے اور جاننے کے بعد میر خیال ہے کہ ہمیں ان کے بارے میں اپنا نقطہ نظر تبدیل کرلینا چاہیے۔ وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے … کے مصداق جب وہ کرسی اقتدار نہیں چھوڑیںگے تو پھر ہمیں ہی اپنی ’’وضع‘‘ بدل لینی چاہیے اور ان کو بد عنوان ثابت کرنے کی ضد چھوڑ دینی چاہیے۔ پچھلے دنوں مولانا فضل الرحمن صاحب نے بھی اپنے ایک اخباری بیان میں یہ فرمایا ہے کہ ’’لوگوں کو وزیراعظم کی دولت پہلے کیوں نظر نہیں آئی؟‘‘
ان کا یہ بیان اس مفہوم میں بھی درست ہے کہ جب لوگوں نے ووٹ دیتے ہوئے ان کے دولت مند ہونے پر اعتراض نہیں کیا تو بھلا اب کیوں اعتراض ہونے لگا ہے اور اگر موصوف کے بیان کا مفہوم یہ لیا جائے کہ وہ لوگوں سے سوال کررہے ہیں تو عوام کی طرف سے اس کا سادہ سا جواب تو یہی ہونا چاہیے کہ جو دولت غیر ملکوں میں چھپی ہوئی تھی وہ ہمیں بھلا نظر آتی بھی تو کیسے؟ اس بحث سے قطع نظر شاید مولانا موصوف وزیراعظم صاحب کے بارے میں حسنِ ظن کا عندیہ دیتے ہوئے ایسا فرمارہے ہیں’قوی‘‘ مومن کمزور مومن سے بہتر ہوتا ہے لہٰذا ہمیں بھی ان کے خیالاتِ نیک سے متاثر ہوکر ا پنا نقطہ نظر بدل لینا چاہیے اور نقطہ ’’نیک‘‘ نظر اپنالینا چاہیے۔ بھلا اس میں حرج ہی کیا ہے کہ ہم وزیراعظم صاحب کے بارے میں یہ نیک گمان قائم کرلیں کہ انہوں نے آف شور کمپنیوں میں چھپائی ہوئی اپنی دولت کئی برسوں کی شبانہ روز محنت و مشقت سے کمائی ہوگی اور پھر ان کے آباو اجداد بھی تو جدی پشتی صاحب ثروت و صاحب جائداد لوگ ھے اور جہاں تک ان کی دولت کی غیر قانونی منتقلی کا سوال ہے تو اس کا جواب بھی نہایت آسان اور سادہ سا ہے کہ جس وقت انہوں نے یہ ’’کار عظیم‘‘ سرانجام دیا تھا اس وقت اس بارے میں کوئی قانون موجود تھا ہی نہیں یا اگر تھا بھی تو پاکستان کا قانون امیر لوگوں کو غریب لوگوں کی ’’دست برد‘‘ سے بچانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ یہ امیر لوگوں اور طاقت وروں پر گرفت کرنے کے لیے بنایا ہی نہیں گیا ہے۔ ہماری یہ خوش فہمی کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی طاقتور کو عدالت کے کٹہرے میں لایا گیا ہے زیادہ دیر قائم نہ رہ سکے گی ایسی صورت میں جب کہ ہماری عدلیہ انصاف کے حصول میں تاخیر کی روش پر چلتی ہے۔ یہاں تو عام آدمی کو انصاف ملتا ہی اس وقت ہے جب وہ قبر میں پہنچ چکا ہوتا ہے اور جن معاملات کو حکومت اور عدلیہ التوا میں رکھنا چاہتی ہے ہمیشہ ہی ان معاملات کو انکوائریوں کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ یہاں عدلیہ سے انصاف کے حصول کے لیے حضرت نوحؑ جیسا صبر درکار ہے۔
پاکستان میں قوانین کی عدم موجودگی یا اس کا غیر موثر ہونا بھی میاں صاحب کے حق میں دلیل بن سکتا ہے کہ جب قانون ہے ہی نہیں تو وہ کس قانون کے تحت اپنے اثاثے غیر ملکوں میں منتقل کرتے؟ میاں صاحب ماشا اﷲ دنیا کے امیر ترین آدمیوں میں سے دسویں نمبر پر ہیں۔ البتہ یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ ورلڈ ریکارڈ جناب کی آف شور کمپنیوں کے ظاہر ہونے سے پہلے بنایا گیا تھا یا بعد میں۔ پنجابی کی کہاوت ہے کہ ’’جیدے گھر دانے اس دے کملے وی سیانے‘‘ (جس کے گھر میں دولت کی ریل پیل ہو اس گھر کے بے وقوف بھی سیانے کہلاتے ہیں) اس لیے میاں صاحب کے اہل خانہ اور بیٹے بیٹیوں کے بارے میں بھی ہمیں نیک گمان کرلینا چاہیے کہ ان کے بچے بچپن ہی سے بلکہ پیدائشی بزنس مین ہیں، چاندی نہیں بلکہ ہیروں سے مزین چمچہ منہ میں لے کر پیدا ہوئے تھے۔ جن گھرانوں کے بے وقوف بھی سیانے کہلاتے ہوں وہاں صحیح الدماغ بچوں کے بارے میں یہ تصور کرلینا چاہیے کہ وہ سنِ بلوغ کو پہنچنے سے پہلے ہی ملک سے باہر کاروبار چلاتے رہے ہوںگے۔ سانحہ احمد پور شرقیہ کے کچھ ہی دن بعد آئل ٹینکر کے ڈرائیور نے اپنے آپ کو قانون کے حوالے کردیا تھا اور قانونی سزا بھگتنے کے لیے تیار تھا۔ لیکن قانونی مراحل کی طوالت سے گزرنے سے پہلے ہی اس کے ضمیر کی عدالت نے اس کے خلاف فیصلہ دے دیا تھا۔ جسے سن کر وہ ذہنی دبائو کی وجہ سے چل بسا۔ واہ رے ضمیر تیری قسمت! جب بھی مِلا غریبوں اور محنت کشوں میں ہی مِلا نہ جانے کیوں امراء، وزرا اور وزیراعظموں نے تجھے گلا گھونٹ کر فنا ہی کر ڈالنے کو ترجیح دی۔ بلکہ نہ صرف اپنے اندر، جہاں جہاں بھی ضمیر کی کوئی جھلک اور امانت و دیانت کا کوئی شائبہ نظر آیا وہاں وہاں شبِ خون مارا۔ ممتاز قادری اور ایمل کاسی کا گلا بھی ان کے ضمیر کے سمیت ہی گھونٹا گیا تھا، شاید پاکستان میں اپنے آپ کو باضمیر ثابت کرنے کے لیے مرنا پڑتا ہے لیکن طبقۂ اشرافیہ اور صاحب اقتدار لوگ زیادہ سے زیادہ جینے کی چاہ میں ضمیر ہی کو مار ڈالا کرتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ شریف خاندان کے ساتھ چاہے عزت سے پیش آئے خواہ ان کا سخت احتساب کرتے ہوئے ملامت آمیز رویہ اختیار کرے انصاف میں تاخیر توبجائے خود ایک نا انصافی ہے۔ قانونی کہاوت ہے کہ: ’’انصاف میں تاخیر نا انصافی ہے‘‘
اثاثہ جات یا رقوم کی غیر قانونی منتقلی کے خلاف دستاویزی شہادت ہی کافی ہوسکتی ہے لہٰذا معاملے کو غیر ضروری طول دینا اور انصاف کرنے میں تاخیر کرنا انصاف نہ دینے کے برابر ہے۔ آئل ٹینکر ڈرائیور کے ضمیرکی عدالت نے تو چند دنوں میں ہی اس کی غفلت مجرمانہ کا فیصلہ سنادیا تھا، وزیراعظم صاحب کے معاملے میں ہماری عدالتوں کو فیصلہ کرنے کے لیے نجانے کتنا وقت درکار ہے؟