…تو بھی نظر میں ہے

306

zc_ArifBeharقائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے بہت دلچسپ بیان دیا ہے کہ نوازشریف گئے تو پکا ہے کہ عمران خان بھی جائیں گے۔ خورشید شاہ کی اس بات کہ تہہ میں یہ تاثر جھلکتا اور چھلکتا دکھائی دے رہا ہے کہ جب یہ دونوں رخصت ہوں گے تو میدان پیپلزپارٹی کے ہاتھ رہے گا۔ پیپلزپارٹی کی اس معصوم اور بے تاب خواہش پر صرف یہ شعر صادق آتا ہے کہ
پژ مردگیِ گل پر ہنسی جب کوئی کلی
آواز دی خزاں نے کہ تو بھی نظر میں ہے
تھوڑا ہی عرصہ ہوا کہ جب قائد اعظم کی تصویروں والے نوٹ بوریوں سے جھانک رہے تھے۔ پانی کی ٹنکیوں میں منہ چھپاتے پھرتے تھے، حسینائوں کے ہوائی سفر کے سامان سے برآمد ہو رہے تھے۔ لانچوں میں ڈوب رہے تھے اس وقت عمومی تاثر یہ تھا کہ پاکستانی سیاست کے دوپہلوان میاں نوازشریف اور عمران خان لڑتے لڑتے رنگ سے آئوٹ ہوجائیں گے جب کہ تیسرے پہلوان آصف زرداری پنیر کا ٹکڑا گرنے کے انتظار میں بیٹھے ہیں مگر وہ اس بات بے خبر ہیں کہ اینٹ سے اینٹ بجاتے ہوئے وہ کبھی کے زمانہ قدیم کے خزانوں کی طرح زمین سے اُگلے جارہے تھے تو پیپلزپارٹی کی صفوں میں آہ وبکاہ کا عالم برپا تھا اور پہلا اعتراض ہی یوں بلند ہوتا تھا کہ صرف پیپلزپارٹی کا احتساب ہی کیوں؟ یہ عمل شروع ہوا تھا ختم نہیں البتہ کچھ وقتی مجبوریوں اور ضرورتوں کی وجہ سے موخر ہوا ہے۔ وقت بتا رہا ہے کہ آصف علی زرداری رنگ سے آئوٹ ہو چکے ہیں اور یہ منظر نامہ کسی طور قابل تعریف نہیں۔ جمہوری نظام میں سیاست اور اقتدار سیاست دانوں کا میدان ہوتا ہے۔ جب سیاست دان مجموعی طور ناکام ہو جائیں اور ایک ایک کرکے غیر فطری انجام سے دوچار ہونے لگیں تو یہ سیاست کے لیے اچھا شگون نہیں ہوتا۔
پاکستان میں سیاست اور جمہوریت پوری طرح جڑ نہیں پکڑ سکی۔ گزشتہ حکومت تاریخ کی پہلی حکومت تھی جو اپنی مدت اقتدار مکمل کر پائی مگر اس دوران بھی حکومتی کشتی کئی سیاسی جھٹکوں کے باعث ہچکولے کھاتی رہی یہاں تک کہ ایک وزیر اعظم کی قربانی لگ گئی مگر نظام کا پہیہ روانی سے چلتا رہا۔ اب بھی حکومتی کشتی مشکلات کے بھنور سے لڑکھڑاتی، ہچکولے کھاتی چلتی چلی جا رہی ہے۔ دھرنوں سے نکل پائی تھی کہ پاناما نے آن گھیرا اور اس کے بعد حکومت کو قرار تک نہ آسکا۔ یہاں تک کہ اب پوری سیاسی کھیپ کی سیاسی میدان سے رخصتی کی باتیں زباں زد ِخاص وعام ہیں۔ پاکستان کا سسٹم ایک عمرانی معاہدے کے تحت چل رہا ہے۔ مختلف صوبائی یونٹس کے درمیان آئین پاکستان شیرازے کا کام دے رہا ہے۔ سیاست دانوں کی باہمی سرپھٹول نے ہمیشہ فوجی اقتدار کی راہ ہموار کی ہے۔ فوجی اقتدار نے اگر ملکی مسائل کو حل کیا ہوتا تو لوگ خوشی خوشی فوجی حکومتوں کے قیام کو قبول کرتے لیکن فوجی حکومتوں نے بھی ملکی مسائل کو حل کرنے کے بجائے بڑھایا ہی ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ سیاسی قیادت افہام وتفہیم کا راستہ اختیار کرے اور سسٹم کا پہیہ رواں رکھے۔ قومی قیادت منظر سے غائب ہو گئی تو پھر کس کے پاس جادو کی چھڑی ہے جسے گھماتے ہی ملک میں خوش حالی، استحکام آئے گا اور قوم کی ترقی کا سفر تیز تر ہوگا۔ قومی سیاسی قیادت ملک کی زمینی حقیقتیں ہیں۔ ان حقیقتوں کا فیصلہ عوام ہی کر سکتے ہیں۔ عوام ہی کسی سیاست دان کو مسترد کرکے منظر سے غائب کر سکتے ہیں اور وہی کسی خاک نشین کو تخت نشین بنا سکتے ہیں۔ نظام چلتا رہے گا تو سیاست دانوں کی باریاں بھی لگتی رہیں گی۔ سسٹم کی بساط لپٹ گئی تو پھر یہی کہا جا سکتا ہے کہ ’’چراغ سب کے بجھیں گے عذاب سب کا ہے۔‘‘
ہماری آج کی سیاست ہی نہیں پورا معاشرہ زوال کا شکار ہے۔ زوال نے سیاست کی راہ دیکھ لی ہے اور سیاست نے زوال کو بڑھانے کا کام دیا ہے۔ چند دن پہلے پیپلزپارٹی کی ہی رہنما قمر الزمان کائرہ نے یہ سوال اُٹھایا تھا کہ ایک دس مرلے کی بھٹی سے اربوں کی جائداد کیسے بنیں؟ سوال جائز ہے مگر پورا معاشرہ اس میں راتوں رات رونما ہونے والی تبدیلیاں، پلک جھپکتے ہی لوگوں کے بدلتے ہوئے کلچر اور رنگ ڈھنگ، اپنی حیثیت اور معلوم ذرائع سے قطعی برعکس دکھائی دینے والا طرز زندگی اس بات کا متقاضی ہے کہ ہر بندہ دوسرے سے اس جادوئی تبدیلی کا راز معلوم کرے؟ پٹواری، میٹر ریڈر، پولیس کے سپاہی سے آغاز کیا جائے تو اچھا ہے یا اگر اب اوپر سے یہ کام شروع ہوا تو اسے بتدریج نیچے تک آنا چاہیے۔ یہ سلسلہ واقعی سیاسی انتقام کا شکار ہو کر یہیں ختم نہیں ہونا چاہیے۔ خیرِ مجسم اور شرِ مجسم کی اصطلاحات اپنی جگہ مگر انسان خیر وشر کا مجموعہ ہے۔ خرابی جس قدر بڑی اور توانا ہو اس کے پہلو میں ہی کہیں اچھائی کی دھڑکن جاری رہتی ہے۔ وہ شر اور خرابی کے مقابل خم ٹھونک کر کھڑی ہونے کی سکت نہ رکھتی ہو اور غلبے کی صلاحیت سے محروم ہو تب بھی اس کی دھڑکن کانوں میں سنائی دیتی ہے۔ اس ملک میں ہمہ گیر احتساب کی خواہش اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ بدعنوانی کا بے قابو عفریت۔ جب ملک میں بدعنوانی ایک قباحت ایک نشان زدگی اور اچھوت پن سے بڑھ کر معاشرے کا عمومی کلچر بنی۔ سب کھاتے ہیں، سب چلتا ہے، کون نہیں کھاتا، جسے ملتا نہیں وہی نہیں کھاتا جیسے جملوں سے اس کلچر کی ترویج اور عوامی قبولیت حاصل ہوتی گئی تو اس کے ساتھ اس خرابی کو روکنے کی باتیں دھیمے سروں سے ہوتی رہیں۔ یہ الگ بات ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ آوازیں کمزور ہوتی چلی گئیں۔ فوجی اور سول دونوں حکمرانوں نے اس احتساب اور جواب دہی کے معاملے کو نظریہ ضرورت کے ڈیپ فریزر کی نذر کیا جب ضرورت پڑی اس اصطلاح کو تروتازہ کرکے سامنے لایا اور ضرورت پوری ہونے پر اس اصطلاح کو دوبارہ کسی کوڑے دان میں ڈال دیا جاتا ہے۔ کسی ایک حکمران اور کسی ایک خاندان کی ترقی اور عروج کے سفر کو جانچنا اور اس پر اُنگلی اُٹھانا کافی نہیں۔ اس ملک میں ایک میٹر ریڈر اور پٹواری کی آمدن اور طرز زندگی میں واضح فرق بتاتا ہے بدعنوانی ملک اور معاشرے کا عمومی کلچر بن چکا ہے۔