ٹینکرز ہڑتال ختم مگر کن شرائط پر

195

Edarti LOHتین دن تک پورے ملک کو پیٹرول کے بحران میں مبتلا رکھنے کے بعد آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن نے اپنی ہڑتال ختم کردی۔ ہڑتال کے دوران میں عوام کاجو حشر ہوا وہ محتاج وضاحت نہیں ۔ لوگ پیٹرول کی تلاش میں جگہ جگہ بھٹکتے رہے۔ اس کا فائدہ پیٹرول پمپ مالکان نے بھی اٹھایا اور پیٹرول مہنگا کردیا۔ یہ ہمارا قومی مزاج بن گیا ہے کہ جس چیز کی قلت ہو اس کی قیمت بڑھا کر زیادہ سے زیادہ منافع سمیٹ لیا جائے۔ ہڑتال ہو یا گراں فروشی، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومتیں عوام کے مفادات کا تحفظ کرنے میں دل چسپی نہیں رکھتیں ۔ اطلاعا ت کے مطابق حکومت نے آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کے مطالبات کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ حالاں کہ بیشتر مطالبات ناجائز تھے۔ عموماً یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ حکمران طاقت ور گروہوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں ۔ شہروں میں چلنے والی ٹرانسپورٹ ہو، دودھ کی قیمت بڑھانے کا مسئلہ ہو یا کسی اور شے کی قیمت، ہڑتال اور احتجاج کی دھمکی پر مطالبات تسلیم کرلیے جاتے ہیں ۔ حکمران کہیں بھی جم کر کھڑے ہوئے نظر نہیں آتے ۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی نے 10روپے بڑھانے کی بات کی تو 5روپے پر سمجھوتا ہوگیا اور پھر یہ دعویٰ کہ دیکھاہم نے عوام کے حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے 5روپے بچا لیے۔ ٹینکرز ایسوسی ایشن نے جس طرح عوام کو پریشان کیا ہے اس کا حساب کون لے گا اور کون دے گا ۔ ایک دن پہلے تک مذاکرات ناکام ہوگئے تھے اورایسوسی ایشن نے اوگرا قوانین کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا اور اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے پر تیار نہیں تھی۔دوسری طرف اوگرا ( آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی) کا دعویٰ تھا کہ کسی سے بلیک میل نہیں ہوں گے اور عوام کی حفاظت کے لیے قوانین پر سختی سے عمل کروائیں گے۔ لیکن اس کے برعکس ہوگیا ہے۔ اوگرا پیچھے ہٹ گئی ہے اور قوانین کی سختی نرمی میں بدل گئی ہے۔ چنانچہ فتح آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن کی ہوئی ہے۔ احمد پور شرقیہ کے اندوہ ناک سانحے پر حکومتی موقف سخت ہوا تھا۔ لیکن ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ آگ ہم نے نہیں ، وہاں موجود لوگوں نے لگائی اور اس کے ذ مے دار تیل چوری کرنے والے ہیں ۔ یقینا آئل ٹینکرز ایسوسی ایشن نے آگ نہیں لگائی لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا حادثے کا شکار ہونے والے ٹینکر کے پاس قانونی دستاویزات تھیں اور اس کے پاس لائسنس تھا؟ اس حادثے کے بعد بھی کئی آئل ٹینکر الٹے ہیں جس کی ذمے داری ٹینکرز ایسوسی ایشن پر عاید ہوتی ہے کہ کیا ان ٹینکروں کے ڈرائیور تجربہ کار تھے یا نہیں ۔ اور غفلت کا مرتکب ہونے، تیز رفتاری کا مظاہرہ کرنے پر کیا کوئی ذمے دار ہے یا نہیں ۔ ٹینکرز ایسوسی ایشن کے مطالبات میں ٹینکر ڈرائیوروں کے تحفظ کے علاوہ یہ مطالبہ بھی تھا کہ 10سال پرانے قوانین کو تبدیل کیا جائے، 40ہزار لیٹر پیٹرول کی ترسیل کے لیے دو ایکسل کا ٹینکر استعمال ہوتا رہا ہے، خطرہ جتنا بھی بڑھ جائے تین ایکسل ٹینکرز نہیں لگائیں گے۔ٹینکر مالکان کو یہ شکایت ہے کہ موٹر وے پولیس ڈرائیوروں پر تشدد کرتی ہے اور بلاوجہ چالان کرتی ہے۔ لیکن پولیس سے یہ شکایت تو عمومی ہے خاص ٹینکر ڈرائیوروں سے یہ رویہ نہیں ۔ آئل ٹینکرز کی ہڑتال ختم ہونے سے عوام نے سکون کا سانس لیا ہے لیکن کیا اوگرا بلیک میل ہوگئی ؟ اور عوام کے تحفظ کے لیے ٹینکرز کو جن حفاظتی اقدامات کا پابند کرنا تھا ان کا کیا ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ پاناما میں پھنسی ہوئی حکومت کو خوف تھا کہ پیٹرول، ڈیزل کی قلت اور عوام کی پریشانی سے حزب اختلاف فائدہ نہ اٹھالے اور اسے بھی حکمرانوں کی نا اہلی کا ایک ثبوت بنا کر پیش کردے۔ اوگرا یا حکمرانوں کو کسی کی بھی بلیک میلنگ سے بچنے کی کوئی راہ تلاش کرنا ہوگی ورنہ کل کوئی اور عوام کو پریشان کرے گا۔