بد عنوانی کے ڈیرے

223

Edarti LOHپاکستان میں ہر طرف بد عنوانی اور بد عنوانوں نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ لوٹ مار اور گھپلوں کا کوئی اسکینڈل سامنے نہ آئے۔ جمعرات ہی کے اخبارات دیکھ لیجیے۔ وزارت ہائوسنگ اینڈ ورکس میں ایک برس کے دوران میں 22 ارب روپے کی کرپشن کی خبر منہ چڑا رہی ہے۔ اس خبر کی تفصیلات کے مطابق کرپشن کے مقدمات نیب اور ایف آئی اے کے پاس ہیں۔ کچھ مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں۔ یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ بد عنوانی میں وزارت ہائوسنگ کے اعلیٰ افسران ملوث ہیں جنہوں نے کاغذات میں جعل سازی کی، پلاٹوں کی جعلی الاٹمنٹ اور سرکاری افسران کو کوارٹرز فراہم کرنے میں کرپشن کی۔ تحقیقات کے لیے دو کمیٹیاں تشکیل دی جاچکی ہیں۔ ان کے علاوہ دو خصوصی کمیٹیاں بھی ہیں جو وزارت میں کرپشن کے درجنوں مقدمات کی تحقیقات پر مامور ہیں۔ جانے کب تک تحقیقات چلتی رہیںگی اور ملزم آزادی سے گھومتے رہیںگے۔ معاملات عدالتوں میں جائیںگے تو وہاں بھی کئی برس لگ جائیںگے۔ ریلوے کی زمینوں پر قبضہ کرکے گالف کلب کی زمین ہڑپ کر گئے۔ بڑے بڑے لوگ ملوث ہیں جن کا شاید کچھ نہ بگڑسکے۔ سرکاری زمین پر جھونپڑی ڈالنے والوں کے خلاف تو فوری کارروائی ہوجاتی ہے۔کسی نے پاکستان اسٹیل کی زمین فروخت کردی اور کوئی جامعہ کراچی کی زمین پر قبضہ کیے ہوئے ہے۔ با اثر طبقے قبضے کی زمینوں کو کوڑیوں کے مول ٹھکانے لگارہے ہیں۔ چائنا کٹنگ کا معاملہ تو بہت پیچھے رہ گیا۔ گزشتہ بدھ کو پبلک اکائونٹس کمیٹی نے نیب سے مطالبہ کیا ہے کہ ریلویز گالف کلب کی اربوں روپے کی زمین پر قبضے کے اسکینڈل کی تحقیقات 6 ماہ میں مکمل کرکے رپورٹ دے۔ یہ معاملہ گزشتہ 5 سال سے اٹکا ہوا ہے کیونکہ اس میں تین ریٹائرڈ جنرل اور ایک سابق بریگیڈیر ملوث ہیں۔ 140 ایکڑ کی نہایت قیمتی زمین بہت معمولی قیمت پر ایک نجی فرم میسرز میکس کارپ کے حوالے کردی گئی تھی۔ اس سے قومی خزانے کو 50 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ اس خورد برد میں فوج کے بڑے بڑے افسران ملوث ہیں جن میں سابق وزیر ریلوے ریٹائرڈ جنرل جاوید اشرف قاضی سر فہرست ہیں۔ یہ گھپلا اس وقت ہوا جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کرلیا تھا اور ملک میں عملاً فوج کی حکمرانی تھی۔ ان پر کون ہاتھ ڈالے گا؟ یہ کام تو سپہ سالار ہی کرسکتے ہیں برسوں پہلے نواز شریف نے کہا تھا کہ جس اینٹ کو اٹھائو اس کے نیچے سے گند ہی نکلتی ہے۔ لیکن وزیراعظم نے گند صاف کرنے کے بجائے اس پر مزید ردے رکھ دیے۔ آج ان پر بھی کرپشن کے الزامات ہیں۔ کہتے ہیں کہ کرپشن اور پاکستان ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے لیکن چل رہے ہیں۔