1947 کے بعد سکم بھارت کے شمال میں ایک چھوٹی سی خود مختار ریاست تھی۔ 1967میں چین نے سکم میں اپنی فوجیں داخل کرکے ملکیت کا دعویٰ کیا لیکن میدان بھارت کے ہاتھ میں رہا۔ اگرچہ دفاع، خارجہ، مواصلات اور سفارتی تعلقات کے محکمے بھارت کے کنٹرول میں تھے لیکن 1975 تک سکم ایک آزاد ریاست تھی۔ یہ آزادی اس وقت ختم ہوگئی جب اسی برس بھارت نے سکم میں اپنی فوجیں داخل کردیں۔ ریاستی حکمران کو معزول کردیا اور چار اپریل کو ریفرنڈم کرایا کہ سکم کی آبادی بھارت سے الحاق کرنا چاہتی ہے یا آزاد رہنا چاہتی ہے۔ نتیجہ وہی نکلا جو اس قسم کے ریفرنڈم کا نکلتا ہے۔ کہا گیا کہ سکم کی آبادی نے بھارت کے ساتھ ادغام کے حق میں ووٹ دے دیا۔ 26اپریل 1975 کو سکم کو بھارت کی بائیسویں ریاست قرار دے دیا گیا۔ سکم کی آبادی ساڑھے چھ لاکھ ہے اور رقبے کے لحاظ سے یہ بھارت کی دوسری سب سے چھوٹی ریاست ہے لیکن جنگی لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے شمال میں چین کا تبت کا علاقہ ہے۔ گزشتہ بیس پچیس برسوں میں چین نے تبت میں انقلابی کام کیے ہیں اور ہوائی اڈوں اور سڑکوں کا جال بچھا دیا ہے۔ پیپلز لبریشن آرمی کے قابل قدر اثاثے یہاں منتقل کیے ہیں۔
بھوٹان جنوبی ایشیا کا ایک چھوٹا اور اہم ملک ہے۔ یہ ایک پہاڑی اور زمین بند (Land Locked) ملک ہے جو چین اور بھارت کے درمیان واقع ہے۔ ثقافتی اور مذہبی اعتبار سے تبت سے لیکن جغرافیائی اور سیا سی لحاظ سے بھارت سے منسلک ہے۔ 1949 کے ایک معاہدے کے تحت بھوٹان کی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں میں بھارت کا اہم کردار ہے۔ بھوٹان کو مکمل طور پر آزاد ملک نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے دفاع کا انحصار بھارت پر ہے۔ اسے بھارت کے زیر حفاظت ریاست کہا جاسکتا ہے۔ بھارت اور بھوٹان کے درمیان 699 کلومیٹر طویل بین الاقوامی سرحد ہے۔ حالیہ تنازع اصل میں چین اور بھوٹان کے درمیان تنازع ہے جس میں بھارت آگے بڑھ کر بھوٹان کا ساتھ دے رہا ہے۔
سکم، چین اور بھوٹان کی سرحد کے درمیان دوکلام کا علاقہ ہے۔ چین میں دوکلام کو ڈونگلانگ کہا جاتا ہے۔ اس علاقے کی حق ملکیت پر چین اور بھوٹان کے درمیان تنازع ہے۔ دونوں ممالک اس پر دعویٰ کرتے ہیں۔ چین کا کہنا ہے کہ دوکلام چین کا ٖحصہ ہے اور چین کے سرحدی رہائشیوں کے لیے روایتی چراگاہ رہا ہے۔ گزشتہ دنوں چین نے دوکلام کے اپنے علاقے میں ایک اہم شاہراہ بنانا چاہی تو بھارت نے بھوٹان میں اپنی فوجیں داخل کردیں۔ بھارت کا کہنا ہے کہ ڈوکلام بھوٹان کے زیر انتظام علاقہ ہے اور چین کو یہاں سڑک تعمیر کرنے کا کوئی حق نہیں یوں دوکلام کے مقام پر چین اور بھارتی فوجیں آمنے سامنے ہیں۔ اسی بنا پر چین کی وزارت خارجہ نے بھارت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سیاسی مقاصد کے لیے دوکلام میں دخل اندازی کو آلہ کار کے طور پر استعمال نہ کرے۔ چین کا کہنا ہے کہ جب تک بھارت بھوٹان سے فوجیں واپس نہیں بلاتا اس سے با مقصد مزاکرات نا ممکن ہیں۔ پیر 24جولائی کو چینی وزارت دفاع کے ترجمان ووقیان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ چین بھارت کی سرحد کے قریب تبت کے علاقے میں اپنی مزید فوج پہنچائے گا اور اپنی خود مختاری کا ہر قیمت پر دفاع کرے گا۔ ملکی حدود میں دخل اندازی برداشت نہیں کی جائے گی۔ چینی لبریشن آرمی کو ہلانا پہاڑ کو ہلانے سے بھی مشکل ہے۔ سکم میں چینی سرحدی فوج نے ایمرجنسی اقدام کیے ہیں۔ وہاں مزید نفری تعینات کی جارہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ باہمی طور پر تسلیم کی گئی سرحد پر بھارت کی جانب سے چوکی عبور کرنا چینی حدود اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ بھارت اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ اس کی پوزیشن غالب ہوجائے گی۔ پیپلز لبریشن آرمی کی 90سال کی تاریخ نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ اس کا چین کی خود مختاری اور علاقے کے دفاع کرنے کا عزم پختہ ہے۔ ان بیانات کی اہمیت یہ ہے کہ چین کا طریقہ ہے کہ وہ طاقت کے استعمال سے پہلے مناسب بیانات اور انتباہ کے ذریعے گرائونڈ تیار کرتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ معاملہ بھوٹان اور چین کے درمیان ہے۔ کیا وجہ ہے بھارت چین جیسی سپر پارو سے مقابلے کے لیے میدان میں کود پڑا ہے۔ جب کہ حیرت انگیز طور پر بھوٹان کی حکومت اور عوام اس معاملے میں خاموش ہیں۔ بھارت کی تشویش اور مداخلت کی وجہ یہ ہے کہ اگر دوکلام میں سڑک تعمیر ہوگئی تو سلی گوری کاریڈور (Silliguri Corridor) یا چکن نیک (Chicken,s neck) کے علاقے تک چین کو رسائی حاصل ہوجائے گی جو دفاعی حکمت عملی کے اعتبار سے بھارت کے لیے خطرناک ہے۔ چکن نیک تقریباً بیس کلومیٹر طویل ایک چوڑی راہ داری ہے جو بھارتی مغربی بنگال میں واقع ہے۔ یہ راہ داری ایک طرف بھارت کی سات شمالی ریاستوں کو پورے بھارت سے ملاتی ہے جب کہ دوسری طرف بھوٹان اور بنگلا دیش سے، جو اس راہ داری کے دوسری طرف واقع ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ چین اور بھارت دونوںاس پر حق ملکیت جتاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ چین نے اپنے زیر انتظام دوکلام میں سڑک کی تعمیر شروع کی تو بھارتی افواج نے مداخلت کرکے سڑک کی تعمیر روک دی۔ یہی وہ مقام ہے جہاں چین اور بھارت کی افوج ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ چین کا کہنا یہ ہے کہ بھارت نے اس کے علاقے میں مداخلت کی ہے اور جب تک بھارت اپنی افواج واپس نہیں بلاتا اس سے کوئی مزاکرات نہیں کیے جاسکتے۔ بھارت سمجھتا ہے کہ چین نے بہت سخت موقف اختیار کر رکھا ہے۔