چین اور بھارت: کسی وقت بھی جنگ چھڑ سکتی ہے

228

baba-alifپچھلے ایک ماہ سے بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازع جاری ہے۔ بھارت، چین اور بھوٹان کے سنگم (ٹرائی جنکشن) پر چین اور بھارت کی فوجیں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی ہیں اور کسی بھی وقت جنگ چھڑ سکتی ہے۔ پاکستان میں اس معاملے پر لوگوں میں اس وقت جوش وخروش دیکھنے میں آیا جب ایک پاکستانی ٹی وی چینل نے یہ خبردی کہ چین اور بھارت کے درمیان جنگ کا باقاعدہ آغاز ہوچکا ہے اور چین نے سکم کے محاذ پر بھارتی فوجوں پر راکٹوں سے حملہ کرکے اس کے 158فوجیوں کو مار دیا۔ ہم جسارت کے دفتر میں تھے جب ’’دنیا نیوز‘‘ کے حوالے سے یہ خبر سنی۔ گھر آکر ہم نے ملکی اور غیر ملکی ٹی وی چینلز کھنگال ڈالے لیکن اس معاملے پر کہیں کوئی خبر دیکھنے سننے کو نہ ملی۔ ہر طرف سناٹا اور خاموشی۔ محسوس ہوا کہ خبر من گھڑت اور تراشیدہ تھی۔ بعد ازاں چینی ذرائع ابلاغ نے بھی اس خبر پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور اسے جھوٹ کا پلندہ قرار دیا۔ لیکن خبر کے غلط ہونے سے اس زمینی حقیقت میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بھارت اور چین جنگ کے دہانے پر ہیں۔ بھارتی قیادت کہہ رہی ہے کہ بھارت اب 1962 والا بھارت نہیں تو چین بھی اس کے جواب میں کہہ رہا ہے کہ چین بھی 1962 والا چین نہیں۔ اس جنگ کے علاوہ دونوں ممالک کی فوجیں 1967، 1987 اور 1986 میں بھی ایک دوسرے کے آمنے سامنے آچکی ہیں لیکن کوئی بڑی لڑائی نہیں ہوئی۔ تاہم اس مرتبہ صورت حال مختلف ہے۔ خود بھارتی حلقے بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر قابو نہ پایا گیا تو موجودہ تنازع ایک بڑے بکھیڑے میں بدل سکتا ہے۔ چین اور بھارتی افواج کے ایک دوسرے کے مقابل آنے کو ’’سکم اسٹینڈ آف‘‘ کہا جارہا ہے اور سکم اور بھوٹان کا نام لیا جارہا ہے آئیے بھارت سے ان کے تعلق کا جائزہ لیتے ہیں۔
1947 کے بعد سکم بھارت کے شمال میں ایک چھوٹی سی خود مختار ریاست تھی۔ 1967میں چین نے سکم میں اپنی فوجیں داخل کرکے ملکیت کا دعویٰ کیا لیکن میدان بھارت کے ہاتھ میں رہا۔ اگرچہ دفاع، خارجہ، مواصلات اور سفارتی تعلقات کے محکمے بھارت کے کنٹرول میں تھے لیکن 1975 تک سکم ایک آزاد ریاست تھی۔ یہ آزادی اس وقت ختم ہوگئی جب اسی برس بھارت نے سکم میں اپنی فوجیں داخل کردیں۔ ریاستی حکمران کو معزول کردیا اور چار اپریل کو ریفرنڈم کرایا کہ سکم کی آبادی بھارت سے الحاق کرنا چاہتی ہے یا آزاد رہنا چاہتی ہے۔ نتیجہ وہی نکلا جو اس قسم کے ریفرنڈم کا نکلتا ہے۔ کہا گیا کہ سکم کی آبادی نے بھارت کے ساتھ ادغام کے حق میں ووٹ دے دیا۔ 26اپریل 1975 کو سکم کو بھارت کی بائیسویں ریاست قرار دے دیا گیا۔ سکم کی آبادی ساڑھے چھ لاکھ ہے اور رقبے کے لحاظ سے یہ بھارت کی دوسری سب سے چھوٹی ریاست ہے لیکن جنگی لحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس کے شمال میں چین کا تبت کا علاقہ ہے۔ گزشتہ بیس پچیس برسوں میں چین نے تبت میں انقلابی کام کیے ہیں اور ہوائی اڈوں اور سڑکوں کا جال بچھا دیا ہے۔ پیپلز لبریشن آرمی کے قابل قدر اثاثے یہاں منتقل کیے ہیں۔
بھوٹان جنوبی ایشیا کا ایک چھوٹا اور اہم ملک ہے۔ یہ ایک پہاڑی اور زمین بند (Land Locked) ملک ہے جو چین اور بھارت کے درمیان واقع ہے۔ ثقافتی اور مذہبی اعتبار سے تبت سے لیکن جغرافیائی اور سیا سی لحاظ سے بھارت سے منسلک ہے۔ 1949 کے ایک معاہدے کے تحت بھوٹان کی خارجہ اور دفاعی پالیسیوں میں بھارت کا اہم کردار ہے۔ بھوٹان کو مکمل طور پر آزاد ملک نہیں کہا جاسکتا۔ اس کے دفاع کا انحصار بھارت پر ہے۔ اسے بھارت کے زیر حفاظت ریاست کہا جاسکتا ہے۔ بھارت اور بھوٹان کے درمیان 699 کلومیٹر طویل بین الاقوامی سرحد ہے۔ حالیہ تنازع اصل میں چین اور بھوٹان کے درمیان تنازع ہے جس میں بھارت آگے بڑھ کر بھوٹان کا ساتھ دے رہا ہے۔
سکم، چین اور بھوٹان کی سرحد کے درمیان دوکلام کا علاقہ ہے۔ چین میں دوکلام کو ڈونگلانگ کہا جاتا ہے۔ اس علاقے کی حق ملکیت پر چین اور بھوٹان کے درمیان تنازع ہے۔ دونوں ممالک اس پر دعویٰ کرتے ہیں۔ چین کا کہنا ہے کہ دوکلام چین کا ٖحصہ ہے اور چین کے سرحدی رہائشیوں کے لیے روایتی چراگاہ رہا ہے۔ گزشتہ دنوں چین نے دوکلام کے اپنے علاقے میں ایک اہم شاہراہ بنانا چاہی تو بھارت نے بھوٹان میں اپنی فوجیں داخل کردیں۔ بھارت کا کہنا ہے کہ ڈوکلام بھوٹان کے زیر انتظام علاقہ ہے اور چین کو یہاں سڑک تعمیر کرنے کا کوئی حق نہیں یوں دوکلام کے مقام پر چین اور بھارتی فوجیں آمنے سامنے ہیں۔ اسی بنا پر چین کی وزارت خارجہ نے بھارت کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ سیاسی مقاصد کے لیے دوکلام میں دخل اندازی کو آلہ کار کے طور پر استعمال نہ کرے۔ چین کا کہنا ہے کہ جب تک بھارت بھوٹان سے فوجیں واپس نہیں بلاتا اس سے با مقصد مزاکرات نا ممکن ہیں۔ پیر 24جولائی کو چینی وزارت دفاع کے ترجمان ووقیان نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ چین بھارت کی سرحد کے قریب تبت کے علاقے میں اپنی مزید فوج پہنچائے گا اور اپنی خود مختاری کا ہر قیمت پر دفاع کرے گا۔ ملکی حدود میں دخل اندازی برداشت نہیں کی جائے گی۔ چینی لبریشن آرمی کو ہلانا پہاڑ کو ہلانے سے بھی مشکل ہے۔ سکم میں چینی سرحدی فوج نے ایمرجنسی اقدام کیے ہیں۔ وہاں مزید نفری تعینات کی جارہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ باہمی طور پر تسلیم کی گئی سرحد پر بھارت کی جانب سے چوکی عبور کرنا چینی حدود اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ بھارت اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ اس کی پوزیشن غالب ہوجائے گی۔ پیپلز لبریشن آرمی کی 90سال کی تاریخ نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ اس کا چین کی خود مختاری اور علاقے کے دفاع کرنے کا عزم پختہ ہے۔ ان بیانات کی اہمیت یہ ہے کہ چین کا طریقہ ہے کہ وہ طاقت کے استعمال سے پہلے مناسب بیانات اور انتباہ کے ذریعے گرائونڈ تیار کرتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ معاملہ بھوٹان اور چین کے درمیان ہے۔ کیا وجہ ہے بھارت چین جیسی سپر پارو سے مقابلے کے لیے میدان میں کود پڑا ہے۔ جب کہ حیرت انگیز طور پر بھوٹان کی حکومت اور عوام اس معاملے میں خاموش ہیں۔ بھارت کی تشویش اور مداخلت کی وجہ یہ ہے کہ اگر دوکلام میں سڑک تعمیر ہوگئی تو سلی گوری کاریڈور (Silliguri Corridor) یا چکن نیک (Chicken,s neck) کے علاقے تک چین کو رسائی حاصل ہوجائے گی جو دفاعی حکمت عملی کے اعتبار سے بھارت کے لیے خطرناک ہے۔ چکن نیک تقریباً بیس کلومیٹر طویل ایک چوڑی راہ داری ہے جو بھارتی مغربی بنگال میں واقع ہے۔ یہ راہ داری ایک طرف بھارت کی سات شمالی ریاستوں کو پورے بھارت سے ملاتی ہے جب کہ دوسری طرف بھوٹان اور بنگلا دیش سے، جو اس راہ داری کے دوسری طرف واقع ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ چین اور بھارت دونوںاس پر حق ملکیت جتاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ چین نے اپنے زیر انتظام دوکلام میں سڑک کی تعمیر شروع کی تو بھارتی افواج نے مداخلت کرکے سڑک کی تعمیر روک دی۔ یہی وہ مقام ہے جہاں چین اور بھارت کی افوج ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ چین کا کہنا یہ ہے کہ بھارت نے اس کے علاقے میں مداخلت کی ہے اور جب تک بھارت اپنی افواج واپس نہیں بلاتا اس سے کوئی مزاکرات نہیں کیے جاسکتے۔ بھارت سمجھتا ہے کہ چین نے بہت سخت موقف اختیار کر رکھا ہے۔