سعودی عرب میں سب کچھ خراب نہیں

258

zc_Muzaferحصہ دوم
کوئی 17 برس بعد اہلخانہ کے ساتھ عمرے کی سعادت نصیب ہوئی۔ گھر والے تو حرم مکی اور مدنی دونوں ہی میں ترقی اور بے انتہا سہولتوں میں اضافے پر حیران تھے۔ شاید کسی کو روایتی طور پر حرم مکی میں داخل ہوکر سیدھے باب ملک فہد سے خانہ کعبہ تک جانے اور خانہ کعبہ کو دیکھ کر پہلی نظر پر دعا کی قبولیت والے معاملے میں کچھ مشکل محسوس ہو … حرم میں توسیع اور پورے مکہ مکرمہ میں صفائی کا جو اہتمام تھا وہ سب کا سب زائرین اور ضیوف الرحمن کے لیے تو ہے ہمیں تو پہلے کے مقابلے میں آسانیاں زیادہ محسوس ہوئیں۔ کچھ باتیں پہلے دو تین دن سمجھ میں نہیں آئیں لیکن پھر سب کچھ سمجھ میں آگیا۔ افطار سے کوئی گھنٹہ بھر قبل رکاوٹیں کھڑی کرکے لوگوں کو مختلف سمتوں میں بھیجا جارہا تھا۔ قریب جانے پر معلوم ہوا کہ عمرہ کرنے اور طواف کا ارادہ رکھنے والے اندر چلے جائیں۔ صرف افطار کرنے یا نماز پڑھنے کا ارادہ رکھنے والے دائیں بائیں سے اوپر جائیں یا باہر صحن میں بیٹھیں۔ تنہا مرد الگ جانب جائیں فیملی کے ساتھ آنے والے اندر جائیں … وغیرہ… یہ سب پہلے بھی ہوتا تھا لیکن اب ایک سپاہی پوسٹر ہاتھ میں لیے کھڑا تھا کہ صرف عمرہ والے اندر جائیں۔ عربی، انگریزی اور اردو میں عبارت تھی۔ صفائی کا عملہ جو بیشتر بنگالی تھے ہر جگہ مستعد کھڑا تھا۔ جب ہم نماز کے لیے حرم جاتے تو ایک دو نہیں کئی لاکھ لوگ اس سمت سے جاتے اور آتے تھے اس عملے کو دیکھ کر ہمارا تبصرہ ہوتا تھا کہ جیسے کہہ رہا ہو… پھینکو کچرا… ابھی صاف کرتا ہوں… کاغذ کا کوئی ذرہ وہ سڑک پر نہیں رہنے دیتے۔ ظاہر ہے ان کی کوئی نگرانی بھی کررہا ہوتا تھا جب دوسرے عمرے کے لیے میقات جانے کا اتفاق ہوا تو شہر مکہ کی بہت سی سڑکیں دیکھیں پہلے سے زیادہ صاف اور شفاف ایسا بھی نہیں تھاکہ یہاں لوگ نہیں رہتے تھے۔ یہ رمضان المبارک کا آخری عشرہ ہے لاکھوں معتمرین اس شہر میں موجود ہیں۔ لیکن مجال ہے جو سڑکوں پر کچرا نظر آجائے۔ بلا وجہ کراچی یاد آگیا۔ کیا مکہ کے میئر کے پاس بہت اختیارات ہیں؟۔ سوئپر وہاں بھی ہیں کراچی میں بھی ہیں بس وہاں کسی سیاسی پارٹی کے کارکن نہیں اس لیے پوری ڈیوٹی دیتے ہیں یہاںتو 50 فی صد سوئپر ہی سیاسی کارکن ہیں تو صفائی کیا ہوگی۔ خیر … کراچی تو جدہ جاکر بھی بار بار یاد آیا… اس کا ذکر آگے کریںگے۔
دوسرے عمرے کے بعد ختم قرآن کا مرحلہ تھا اس روز حرم میں اندر داخل ہونا مشکل لگ رہا تھا لیکن حسب معمول خود کو ریلے کے حوالے کردیا اور اندر پہنچ گئے۔ ایک رات قیام الیل کے لیے لوگوں نے مکہ ٹاورز کے پیچھے ایک سڑک پر صف بندی کرلی۔ تھوڑی دیر میں نمازیوں کی تعداد اتنی بڑھی کہ دوسری جانب کی سڑک پر بھی صفیں بن گئیں اور راستہ بند ہوگیا۔ یہ تقریباً ایک لاکھ کے لگ بھگ لوگ تھے۔ لیکن 15 منٹ سے بھی کم وقت میں پولیس نے سڑک کا ایک ٹریک خالی کرالیا۔ کوئی لاٹھی چارج نہیں ہوا، کوئی مارپیٹ نہیں ہوئی، بس ایک آواز تھی ’’یا حاج…طریق…‘‘ یہ راستہ ہے حاجی صاحب اور لوگوں کو سمجھایا کہ نفل نماز کے نام پر راستہ نہ روکو۔ اس آپریشن کا سبب کیا تھا۔ یہ ایک لاکھ لوگ صف باندھ کر سڑک پر کھڑے ہوگئے اور حرم سے نکل کر آنے والے تین سے پانچ لاکھ کا ریلا قریب پہنچ چکا تھا۔ اگر بروقت سڑک خالی نہ کرائی گئی ہوتی تو کچلے جانے کا سانحہ ہوسکتا تھا۔
مکہ مکرمہ میں اس سے قبل بھی عید منائی تھی لیکن اس مرتبہ کچھ مختلف معاملا تھا۔ بے چینی سے عیدالفطر کا انتظار تھا۔ سعودی عرب میں یہ مخمصہ نہیں ہوتا کہ چاند دیکھنے کے لیے کمیٹی بیٹھے گی، اعلان ہوگا یا اختلاف ہوگا۔ انہوں نے ایک نظام بنایا ہوا ہے جس کے تحت عید اور رمضان کے بارے میں اعلانات کردیے جاتے ہیں۔ چاند دیکھنے کا بھی اہتمام ہوتا ہے اور شہادتیں بھی لی جاتی ہیں، غلطی ہوجائے تو رجوع بھی کرلیتے ہیں۔ لہٰذا ہم نے بھی منصوبہ بندی کرلی تھی۔ بہت چالاکی کے ساتھ سب لوگ رات کو ہی ایک ایسی جگہ جاکر بیٹھ گئے جہاں سے خانہ کعبہ سامنے نظر آرہا تھا۔ یہ سوچا کہ یہیں بیٹھ کر رات گزاریںگے۔ فجر کے ایک گھنٹے بعد نماز عید ہوجائے گی اور پھر آرام سے ہوٹل جاکر نیند پوری کریںگے لیکن صفائی کے عملے نے بتایاکہ اگلے دو گھنٹے میں پورے حرم کی دھلائی اور صفائی ہوگی آپ لوگ ڈھائی بجے رات کے بعد آئیں۔ چنانچہ ہوٹل واپس آنا پڑا۔ پونے تین بجے اسی طرح کی دوسری جگہ مل گئی اور عید کی نماز تک وہیں بیٹھے رہے ۔ فجر کے بعد عیدالفطر کی نماز کے انتظار میںتھے برابر میں بیٹھے ایک صاحب نے سوال کیا کہ آپ کہاں سے آئے ہیں ہم نے بتایا کراچی سے۔ اچھا… ’’وہاں بجلی کا تو بُرا حال ہے‘‘ کے الیکٹرک کچھ سدھری…؟؟ ہم نے ان کے ساتھیوں کی گفتگو سننے اور جاننے کے باوجود سوال کیا بزرگو! آپ کہاں سے آئے ہیں؟ انہوں نے بتایاکہ ڈیرہ غازی خان۔ ہم نے کہا اچھا …ڈاکٹر نذیر کے علاقے سے…بس… اس کے بعد وہ کہیں اور ہم سنا کیے کے مصداق بزرگ کہنے لگے بڑا زبردست آدمی تھا۔ یہ بھٹو کا دور تھا اور… مصطفی کھر گورنر تھا، اسی بدمعاش نے مروایا تھا۔ ڈاکٹر نذیر جیسا آدمی پورے ڈی جی خان میں نہیں تھا۔ وہ تو ڈی جی خان کے ماتھے کا جھومر تھا۔ ایم این اے تھے لیکن ہر کوئی مل لیتا تھا۔ مجھے یاد ہے کلینک میں بیٹھا تھا بدمعاش آئے گولیاں چلائیں اور قتل کردیا۔ سارا ڈی جی خان رویا۔ آج بھی یاد آتی ہے تو دل روتا ہے۔ ہمارا مان تھا۔ ڈاکٹر۔ اس گفتگو سے دو باتیں واضح ہوئیں ایک یہ کہ پہلے کراچی کا حوالہ دو تو لوگ پوچھتے تھے کہ وہاں حالات کیسے ہیں بوری میں لاشیں اب بھی ملتی ہیں۔ گھر سے نکلنا مشکل تو نہیں ہوتا۔ یار فیملی کے ساتھ کیسے رہتے ہو۔ یعنی کراچی کی شناخت قتل و غارت، بھتا، بوری بند لاش تھی۔ اب کے الیکٹرک ہوگئی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ڈاکٹر نذیر جس کا مان تھے کہیں وہ انہیں بھول تو نہیں گئے۔ باباجی جماعت اسلامی کے نہیں تھے۔ لیکن جس طرح یاد کررہے تھے اس درد کو صرف اسی وقت ہم نے اپنے دل میں محسوس کیا۔
عید کی نماز پڑھ کر باہر نکلے تو منظر ہی بدلا ہوا تھا۔ کل تک معتمرین کو سختی سے اِدھر اُدھر بھیجنے والے نوجوان پولیس اہلکار ایک دوسرے کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے حرم سے باہر آنے والوں کو عید کی مبارک باد دے رہے تھے، مخصوص انداز میں ہاتھ ملا رہے تھے ان کے چہروں سے خوشی عیاں تھی۔ یہ بالکل نیا رویہ تھا۔ رات تک نظام کو سیدھا رکھنا تھا اب لوگ گویا ٹھنڈے ہوچکے تھے اور یہ چھوٹے چھوٹے نو عمر پولیس اہلکار ضیوف الرحمن کی خدمت کرکے آج عیدالفطر کے روز خود بھی مسرور تھے اور مٹھائیاں تقسیم کررہے تھے۔
عید کا دن تو مکہ مکرمہ میں گزارا، زیادہ وقت ہوٹل میں اور مسجد میں، اگلے روز صبح فجر کے فوراً بعد مدینہ منورہ روانہ ہونا تھا۔ لیکن عید کی شام کو امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب کے ساتھ ایک نشست کی دعوت بھی تھی ہم نے اس میں شرکت کو لازم کرلیا اور وہاں نوجوانوں کی بڑی تعداد کو دیکھا جو سراج صاحب کے ساتھ کچھ وقت گزارنا چاہتے تھے۔ اس نشست میں مکہ مکرمہ میں مقیم پاکستانیوں کی ملک کے لیے بے چینی قابل قدر تھی۔
(جاری ہے)