انتظار کیجیے ‘اعتراض کرنے میں جلدی نہ کریں…

374

ڈاکٹر عبدالرحمن العریفی
ایک صاحب فنِ مکالمہ پر لیکچر دے رہے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے یوسف علیہ السلام کا قصہ بیان کیا، جب وہ قرآن کی اس آیت پر پہنچے:
ودخل معہ السجن فتیان۔ (سورہ یوسف 36)
’’اس کے ساتھ قید خانے میں دونوجوان بھی داخل ہوئے۔‘‘
تو انھوں نے حاضرین کو بغور دیکھا، پھر ان سے دریافت کیا:
’’اس کے ساتھ قید خانے میں دو نوجوان بھی داخل ہوئے؟ ان تینوں میں سے کون پہلے داخل ہوا؟‘‘
یوسف علیہ السلام یا دونوں جوان؟
ایک پکارا: ’’یوسف علیہ السلام۔‘‘
دوسرے نے کہا: ’’نہیں، دونوں جوان۔‘‘
تیسرا بولا: ’’نہیں، نہیں یوسف، یوسف۔‘‘
چوتھے نے ذرا ہوشیار بننے کی کوشش کی: ’’وہ اکٹھے داخل ہوئے تھے۔‘‘
پھر پانچواں بولا اور ایک شور بپا ہوگیا۔ اصل بات کہیں غائب ہوگئی۔ لیکچرار صاحب یہی چاہتے تھے۔ انھوں نے حاضرین کے چہروں کو غور سے دیکھا اور مسکرائے، پھر انھیں خاموش ہوجانے کا اشارہ کیا اور کہنے لگے:
’’آخر مشکل کیا ہے؟ یوسف علیہ السلام پہلے داخل ہوئے ہوں یا دونوں جوان، بات ایک ہی ہے۔ کیا یہ مسئلہ اتنے اختلاف اور بحث وتکرار کا مستحق ہے؟‘‘
واقعی بسا اوقات ہم لوگ خواہ مخواہ دوسروں کی باتیں کاٹ کر اعتراض کرتے اور ساری بات کا مزہ کرکرا کر دیتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم کسی چیز کی حقیقت سمجھے بغیر اس پر اعتراض جڑ دیتے ہیں اور صبر یا انتظار کرنے کا تکلف نہیں کرتے۔
زید ایک نیک نوجوان ہے۔ وہ لوگوںکو اچھے کاموں کی نصحیت کرنے میں خاصا پْر جوش ہے۔ ایک روز وہ اپنی کار میں بیٹھا محو سفر تھا۔ گاڑی سرخ اشارے پر رُکی۔ انگریزی موسیقی کی تیز اور بے ہنگم آواز زیاد کے کانوں میں پڑی۔ زیاد کو حیرت ہوئی کہ یہ بلند آواز کہاں سے آرہی ہے۔ وہ اِدھر اْدھر دیکھ رک آواز کا مخرج تلاش کرنے لگا۔ آواز ساتھ والی کار سے آرہی تھی۔ زید نے گاڑی کا ہارن بجا کر اس کار کے ڈرائیور کو متوجہ کرنے کی کوشش کی کہ ریکارڈ کی آواز آہستہ کرے۔ اس آدمی نے توجہ نہیں کی۔ وہ موسیقی میں مست اپنے گردو پیش سے بے خبر تھا۔ زید نے جب یہ دیکھا کہ اس گاڑی میں بیٹھا شخص مکمل طور پر باریش ہے تو اس کی حیرت مزید بڑھ گئی۔ اسے تعجب ہوا کہ شرعی حلیے کا حامل آدمی قرآن کی تلاوت کے بجائے موسیقی سن رہا ہے اور وہ بھی اس قدر بند آواز سے… اتنے میں سبز بتی جلی اور سب گاڑیاں چل پڑیں۔ زید اس آدمی کو راہِ راست پر لانے پر تلا پوا تھا۔ اس نے اپنی کار اس کے پیچھے لگا دی۔ وہ آدمی ایک شاپنگ سنٹر کے پاس رکا۔ زید نے کا اس کی کار کے عقب میں کھڑے کر دی اور اس کی حرکتیں نوٹ کرنے لگا۔ وہ آدمی کار سے نکلا۔ وہ پتلون میں ملبوس تھا۔ زید نے سوچا اب یہ سگریٹ خریدے گا۔ لیکن یہ کیا! اس کے ہاتھ میں ایک معروف دینی میگزین تھا۔ زیاد سے صبر نہ ہوا۔ وہ گاڑی سے نکلا اور اس آدمی کے پاس جا کر نرمی سے بولا: ’’بھائی! اگر آپ اجازت دیں تو…، اس نے کوئی جواب نہ دیا اور توجہ بھی نہیں کی۔
زید نے آواز ذرا بلند کی:
’’دیکھیے، سنیے! اگر آپ اجازت دیں تو۔‘‘
آدمی نے اب بھی زید کی طرف توجہ نہ کی اور جا کر گاڑی میں سوار ہو گیا۔
زید طیش میں آگیا۔ وہ گاڑی کے قریب آیا اور بولا: ’’بھائی! اللہ آپ کو ہدایت دے۔ آپ کو سنائی نہیں دیتا؟‘‘
آدمی نے مسکرا کر زید کی طرف دیکھا اور گاڑی اسٹارٹ کر دی۔ گاڑی اسٹارٹ ہوتے ہی ریکارڈ بھی اونچی آواز سے بجنے لگا۔ زید مشتعل ہو کر کہنے لگا:
’’بھائی! یہ حرام ہے۔ آپ نے لوگوں کو تنگ کر رکھا ہے۔‘‘
آدمی نے زید کو غصے میں دیکھا تو اپنے کانوں کو ہاتھ لگا کر ’’نہ‘‘ کا اشارہ کیا، پھر جیب سے ایک جیبی ڈائری نکالی جس کے پہلے صفحے پر لکھا تھا:
’’میں گونگا بہرا ہوں، سن نہیں سکتا۔ براہِ کرم آپ جو کہنا چاہتے ہیں لکھ دیجیے۔‘‘
اللہ تعالی نے سچ فرمایا:
وکان الانسان عجولا۔ (بنی اسرائیل 11)
’’اور انسان جلد باز واقع ہو اہے۔‘‘
راستہ
’’صبرخجالت سے بچاتا ہے۔‘‘