مزید گفتگو اور مصروفیت بھی ان کی یہی رہی۔ اسلام آباد سے کوئی صاحب آرہے ہیں ان کو لینے جانا ہے، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ عبدالغفور حیدری موجود ہیں ان کی خدمت میں چائے لے جانی ہے۔ قاری عثمان بھی آئے ہیں پرانے دوست ہیں انہیں گھر میں ٹھیرایا ہے ان کا بھی اکرام کرنا ہے اور ہمیں بھی دیکھنا ہے۔ جب تک ہم جدہ میں رہے ان سے رابطہ رہا اور یہی سنتے رہے کہ آج صبح مدینہ سے مکہ آیا، رات جدہ بھی آنا ہوگا لیکن مہمان ساتھ ہوں گے۔ آخری روز تک وہ یہی کام کرتے رہے۔ ایسا لگ رہا تھا ان کا کاروبار کوئی اور چلا رہا ہے اور وہ خدمت کررہے ہیں۔ اللہ جزائے خیر دے۔
مدینہ منورہ کے بعد ہمارا پروگرام 8 روز جدہ میں قیام کا تھا جہاں ہمارے پرانے ساتھی ملاقات کے لیے بے چین تھے اردو نیوز کے احباب تھے۔ اردو نیوز سے دلی وابستگی یوں بھی ہے کہ اس کی بنیاد رکھنے میں ہماری مساعی بھی شامل تھیں۔ محمد المختار الفال جب پاکستان آئے تو صلاح الدین حیدر کے ذریعے ایک ٹیم بنا رہے تھے اور صلاح الدین حیدر ہمارے مشورے سے ٹیم بنارہے تھے یہ اور بات ہے کہ مختار الفال دو اور ذرائع کے تعاون سے مزید دو ٹیمیں بنارہے تھے۔ بہرحال جدہ میں ایک پاکستانی ساتھی نے اپنا فلیٹ پیش کردیا کہ کسی ہوٹل میں رہائش کی ضرورت نہیں بعد میں انہوں نے بتایا کہ حاجیوں اور معتمرین کی خدمت کے لیے ہمارے فلیٹ حاضر رہتے ہیں اور اگر ہم بیرون ملک بھی ہوں تو ہمارے فلیٹ کی چابی یہیں کسی کے پاس ہوتی ہے۔
جدہ میں جس تنظیم نے سب سے پہلے 17 برس قبل ہم سے تعارف کرایا تھا اور تعلقات قائم کیے تھے اسی تنظیم نے سب سے پہلا استقبالیہ دیا ایک سمپوزیم منعقد کیا اور ہمیں مہمان خصوصی بنادیا۔ یہ تنظیم مجلس محصورین پاکستان (پی آر سی) ہے۔ پی آر سی کے روح رواں انجینئر احسان الحق ہیں ان کا دل و گردہ ہے کہ برسہا برس سے اس انسانی مسئلے کو زندہ رکھا ہوا ہے۔ ان کے ساتھ سابق سعودی سفارت کار علی الغامدی بھی دل و جان سے اس مسئلے کو زندہ رکھنے میں فعال ہیں۔ اس سمپوزیم کی روداد تو شائع ہوچکی لیکن جو کچھ وہاں صاحب صدر علی الغامدی کے ساتھ ہورہا تھا اس پر ہم نے ان کو تسلی دی۔ ان کے لیے وقت ہی نہیں بچ رہا تھا ایسا لگ رہا تھا کہ وہ مغرب کی نماز ہی پڑھائیں گے۔ ہم نے کہا کہ گھبرائیں نہیں ہم ’’اَحسن الکلام ماقل ودَلّہ‘‘ کے مصداق مختصر بات کریں گے اور مختصر بات ہی کی۔ انہوں نے اس کا اعتراف کیا اور بتایا کہ وہ پروفیسر ڈاکٹر انیس کے گھر سابق مدیر جسارت محمد صلاح الدین سے بھی مل چکے ہیں۔ وہ اس وقت کراچی قونصل خانے میں متعین تھے۔
(جاری ہے)