اسلام آباد (نمائندہ جسارت ) عدالت عظمیٰ کے 5رکنی لاجربینچ نے وزیر اعظم نواز شریف ‘ ان کے بیٹوں حسن ‘ حسین ‘ بیٹی مریم ، داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفد ر اور سمدھی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو اثاثے چھپانے کے جرم میں متفقہ طور پر نااہل قرار دے دیا ہے ۔ عدالت نے قومی احتساب بیورو نیب کو حکم دیا ہے کہ ان افراد کے خلاف 6ہفتوں کے اندر جے آئی ٹی مواد کی بنیاد پر مقدمات درج کرتے ہوئے 6ماہ میں کارروائی مکمل کرے۔ واضح رہے کہ پاناما لیکس کامعاملہ سامنے آنے کے بعد سب سے پہلے جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق اور اس کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پھر عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید نے وزیراعظم کی اناہلی کے لیے درخواستیں دائر کی تھیں۔25 صفحات پر مشتمل عدالتی فیصلے کا کچھ حصہ جسٹس اعجاز افضل خان اور کچھ حصہ بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے بھری عدالت میں پڑھ کر سنایا جس میں نوازشریف کو تاحیات نااہل قرار دیا گیا۔جسٹس اعجاز افضل نے پاناما کیس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس گلزار احمد کے ابتدائی فیصلے کا بھی حوالہ دیا۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ ہم نے پوری احتیاط کے ساتھ دستاویزات ،جے آئی ٹی رپورٹ کاجائزہ لیا۔ریفرنس تیاری کے لیے نیب جے آئی ٹی کی تحقیقات کے دوران حاصل مواد کو بھی سامنے رکھا۔عدالتی فیصلے میں قرار دیا گیا ہے کہ نواز شریف ’’کیپیٹل ایف زیڈ ای‘‘ کے تنخواہ دار چیئرمین تھے ، انہوں نے عام انتخابات 2013ء میں جمع کرائے گئے کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہیں کیے جو عوامی نمائندگی ایکٹ 1976 (روپا) کی خلاف ورزی ہے، انہوں نے اس ضمن میں جھوٹا بیان حلفی جمع کرایا جس کی وجہ سے وہ روپا کے سیکشن 99(f) اور آئین کے آرٹیکل 6 B1f) کے تحت صادق اور امین نہیں رہے اس لیے وہ بطور رکن مجلس شوریٰ نااہل ہو چکے ہیں۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کو حکم دیا کہ صادق اور امین نہ رہنے کی وجہ سے فوری طور پر نوازشریف کی اسمبلی رکنیت کے خاتمے کا نوٹیفکیشن جاری کرے جب کہ صدر مملکت سے کہا گیا ہے کہ وہ جمہوری عمل کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کریں۔فیصلے میں نوازشریف، حسین اور حسن نواز کے خلاف عزیزیہ اسٹیل کمپنی اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے ریفرنس دائر کرنے اوراسحاق ڈار کے خلاف معلوم ظاہر سے زیادہ اثاثے رکھنے پر ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ نیب شیخ سعید، موسیٰ غنی، کاشف مسعود قاضی ‘ جاوید کیانی اور نیشنل بینک کے سربراہ سعید احمد کو بھی کارروائی میں شامل کرے جب کہ احتساب عدالت کسی بھی ڈیڈ، دستاویز یا بیان حلفی کو جعلی، غلط، من گھڑت پائے تو قانون کے مطابق کارروائی کرے۔تحریری فیصلے میں چیف جسٹس سے استدعا کی گئی ہے کہ عدالتی حکم پر عمل درآمد اور نیب کارروائی کی نگرانی کے لیے ایک جج کو نامزد کریں۔عدالت عظمیٰ کے لارجر بینچ نے اپنے فیصلے میں جے آئی ٹی ارکان کی کوششوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان کی انتھک محنت کے بغیر نتیجہ اخذ کرنا مشکل تھا۔ عدالت نے جے آئی ٹی ارکان کو ان کی ملازمتوں کے تحفظ کی یقین دہانی بھی کرائی۔