پاناما کیس کا فیصلہ انصاف اور قانونی تقاضوں اور قوم کی اکثریت کی خواہش کے مطابق آنے و سے اب توقع ہوچکی ہے کہ جلد ہی کرپشن کے مقدمات میں ملوث دیگر سیاسی اور غیر سیاسی عناصر کے خلاف بھی سخت احتساب کیا جائے گا۔ اگر احتساب کے سلسلے میں کوئی رکاوٹ نہیں آئی تو جس سے آئندہ ملک میں بے ایمانی، بدعنوانی اور جعلسازی کا سلسلہ ختم ہونے کی خوش فہمی پیدا ہوچکی ہے۔ عدالت عظمیٰ کے پاناما کیس میں آنے والا حکم جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور پوری جماعت اسلامی کے لیے بھی باعث مبارک ہے کیوں کہ جماعت اسلامی کرپشن کے خاتمے کے لیے مہم بھی چلا رہی ہے۔ اس فیصلے سے تحریک انصاف اور اس کے سربراہ عمران خان کا بھی حوصلہ بڑھے گا۔ لیکن چوں کہ عمران خان کی نااہلی کا مقدمہ بھی عدالت میں زیر سماعت ہے اس لیے تحریک انصاف کے کارکوں کو وہ خوشی نہیں ہوگی جو پاناما کیس پر فیصلہ آنے سے جماعت اسلامی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو ہورہی ہے۔
پاناما کا فیصلہ پیپلز پارٹی کے لیے بھی کسی خوشی سے زیادہ فکرات کا باعث بن رہا ہوگا کیوں کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کرپشن کے الزامات سب سے زیادہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں پر ہیں۔ پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری کو بھی ان الزامات کا سامنا ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ آصف زرداری پاناما کے حوالے سے بننے والی جے آئی ٹی کی رپورٹ عدالت میں پیش کیے جانے سے صرف تین روز قبل دبئی منتقل ہوچکے ہیں۔ اب یہ نہیں معلوم کہ نواز شریف کی نااہلی کے تاریخی فیصلے کے بعد ان پر کیا گزر رہی ہے اور وہ کب تک وطن واپس آتے ہیں؟ اس طرح پاناما کا فیصلہ پیپلز پارٹی کے مستقبل کے لیے بھی کوئی غیر معمولی خوشی کا باعث نہیں نظر آتا ہے۔ لیکن خوشی اس بات کی ہے کہ اس فیصلے سے کرپٹ عناصر کی حوصلہ شکنی ہوگی اور ان کے لیے پاک وطن میں جگہ نہیں ہوگی۔
جمعہ کو سنائے جانے والے عدالت کے اس فیصلے کا کریڈٹ اس لیے بھی جماعت اسلامی کو ملنا چاہیے کہ نہ صرف جماعت کرپشن کے خلاف عملی اقدامات کیے بلکہ پاناما کیس کی سماعت کے دوران ایک موقع پر معز جج نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ ’’اگر سب کے خلاف تحقیقات کی گئی اور صادق اور امین کے حوالے سے جانچ کی گئی تو پارلیمنٹ میں صرف سراج الحق ہی بچیں گے‘‘۔
پاناما کیس کے فیصلے کے نتیجے میں وزیراعظم کے نااہل ہونے کے بعد وفاقی کابینہ بھی ختم ہوچکی ہے۔ اس لیے اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ ایوان کے اندر سے نئے قائد کا انتخاب کرتی ہے یا پھر موجودہ جمہوری دور جو مارچ 2018 میں ختم ہورہا ہے اس سے ازخود پوری مسلم لیگ نواز دستبردار ہوجائے گی۔ وزیراعظم ہاؤس میں سے فیصلے کے بعد جاری کیے گئے وزیراعظم کے ترجمان کے بیان میں کہا ہے کہ ’’نواز شریف عہدے سے سبک دوش ہوچکے ہیں‘‘۔ گو کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ مسلم لیگ نواز اور نواز شریف نے عدالت کے فیصلے کو تسلیم کرلیا ہے۔ وزیراعظم کے دستبردار ہونے کے بعد پوری کابینہ بھی تحلیل ہوچکی ہے۔ اب نئے وزیراعظم کے تقرر کے بعد ہی کابینہ تشکیل دی جاسکے گی۔ چوں کہ نواز شریف آرٹیکل 63 کے تحت نااہل ہوچکے ہیں اس لیے وہ اپنی پارٹی کی سربراہی کے لیے بھی نااہل ہوچکے ہیں۔ عدلیہ کے فیصلے کے نتیجے میں مسلم لیگ نواز ایک نئے سیاسی مسئلے کا شکار ہوچکی ہے۔ یہ مسئلہ مسلم لیگ کی بقاء کے لیے چیلنج سے کم نہیں ہے۔ یقیناًاس سے نمٹنے کے لیے مسلم لیگ کو انتہائی غیر معمولی فیصلہ کرنا پڑے گا۔ سب سے پہلے مسلم لیگ کے سربراہ کا انتخاب، بعدازاں ایوان کے اندر تبدیلی کے حوالے سے فیصلہ کرنا ہوگا۔ واضح رہے کہ پارٹی کے اندر سے مقررہ وقت پر نیا وزیراعظم نہیں لایا گیا تو مزید نئے مسائل بھی پیدا ہوجائیں گے۔ ایسی صورت میں اسمبلی معطل یا تحلیل بھی کی جاسکتی ہے۔ میں ان ہی کالموں میں لکھ چکا ہوں کہ اگر پاناما کے فیصلے کے نتیجے میں وزیراعظم نوز شریف نااہل ہوگئے اور ان کے خاندان سمیت تمام کرپٹ عناصر کا احتساب کا عمل شروع ہوا تو یہ نئے پاکستان کی شروعات ہوگی۔ ایسا لگتا ہے کہ راقم کی لکھی ہوئی بات کی الحمدللہ شروعات ہوچکی ہے۔