بھارت :ہندو جنونیت کے نرغے میں

219

تاریخ: 18جولائی۔ مقام: امراوتی، بھارتی صوبے آندھرا پردیش کا جدید شہر۔ تلواریں، ڈنڈے اور ہاکیاں اٹھائے ہوئے دس جنونی ہندو ایک باڈی بلڈنگ کلب میں داخل ہوئے اور ایک نوجوان باڈی بلڈر پر حملہ کردیا۔ اس کوگھسیٹتے ہوئے سڑک پر لائے اور تلوار کے وار کرکے اس کے جسم کے ٹکڑے کردیے۔ یہ مظلوم نوجوان مسلمان باڈی بلڈرنوید پٹھان عرف پپو تھا۔ یہ سب کچھ دن دیہاڑے ایک بھرے بازار میں ہوا۔ لوگ سڑک سے گزرتے رہے لیکن کسی نے اس ظلم کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ سی سی ٹی وی کیمرے پر یہ واقعہ ریکارڈ ہوتا رہا۔ خبر اگلے دن صرف ایک مقامی اخبار میں شائع ہوئی۔ پولیس نے سات افراد کو گرفتار کرلیا۔ اس واقعے کی ویڈیو وائرل ہوتے ہی پولیس کی تفتیش کا رخ بدل گیا اور اس کھوج میں لگ گئی کہ یہ ویڈیو کیسے وائرل ہوگئی۔ ویڈیو اس قدر خوفناک ہے کہ اسے دیکھنا کم از کم ہمارے بس میں تو نہیں تھا۔
مسلمانوں کے خلاف اس قسم کے واقعات آج بھارت میں معمول ہیں۔ بھارت کے مسلمان اس ’’ہندوتا‘‘ اور مذہبی جنونیت کے نشانے پر ہیں وزیر اعظم نریندر مودی جس کے پر چارک اور نقیب ہی نہیں مرکز ومحور ہیں۔ وہ مسلمانوں سے شدید نفرت کرتے ہیں اتنی کے فسادات میں مسلمانوں کے مارے جانے کو گاڑی کے نیچے آجانے والے کتے کی مثل بے وقعت قرار دیتے ہیں۔ بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ آج مودی حکومت جو سلوک کر رہی ہے وہ انتہائی وحشیانہ اور تشدد پر مبنی ہے۔ حکومتی طاقت مسلمانوں کو تباہ اور برباد کرنے کے لیے استعمال کی جارہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں کئی دہائیوں سے جاری بھارتی مظالم میں نریندر مودی کے دور میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ جس میں اسرائیل مودی سرکار کا عملی اور نظری معاون ہے۔ اسرائیل ایک طرف بھارت کو جدید ترین مہلک ہتھیار فراہم کررہا ہے۔ کشمیر میں نوجوان مسلم مجاہدین کو بینائی سے محروم کردینے والی چھروں والی گن بھارت کو مہیا کررہا ہے۔ دوسری طرف اسرائیل فلسطین میں مسلم آبادی کے تناسب کو کم کرنے کے اپنے تجربے سے بھارت کو فائدہ پہنچا رہا ہے۔ ان ہی طور طریقوں کو اپنا کر بھارت سرکار بھی مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب کم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔
پورے بھارت میں مسلمانوں کو نہ صرف ظلم کا نشانہ بنایا جارہا ہے بلکہ ملکی معاملات سے بھی مکمل طور پر انہیں الگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اتر پردیش (یوپی) میں ہے۔ بیس فی صد تقریباً چار کروڑ۔ دارالحکومت لکھنو ہے۔ گزشتہ دنوں ہونے والے انتخابات میں چار سو تین ارکان پر مشتمل اتر پردیش اسمبلی میں بی جے پی کے تین سو بارہ کامیاب امیدواروں میں ایک بھی مسلمان نہیں تھا کیونکہ کسی مسلمان کو ٹکٹ ہی نہیں دیا گیا۔ مودی یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ بیس فی صد مسلمان انتخابی نتائج پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور اس میں وہ کامیاب رہے۔ مسلمانوں سے نفرت کو نریندر مودی صرف اپنی ذات، حکومت اور موجودہ دور تک محدود نہیں رکھنا چاہتے بلکہ وہ مسقبل کے لیے بھی بھارت کی ایسی ہی صورت گری اور بندوبست میں مصروف ہیں۔ وہ مہاراج یوگی ادتیا ناتھ کو اپنا جانشین بنانا چاہتے ہیں۔ جسے یوپی کا وزیر اعلیٰ بنا کر انہوں نے سب کو حیران کردیا۔ سوامی ادتیا ناتھ کی کیا کوالیفیکیشن ہے۔ وہ مسلمانوں کے لیے کیا جذبات رکھتا ہے۔ نیورک ٹائمز میں ایلن باری کے ایک مضمون میں ملاحظہ فرمائیے: ’’یہ یوگی وہ انسان نما حیوان ہے جس نے ہندوستان کے ماضی کی مسلم تاریخ کو مٹانے اور از سر نو ایک نئی تاریخ لکھنے کے لیے ایک فوج بنائی تھی جس کا وہ خود چیف تھا۔ اس فوج نے ہندوستانی مسلمانوں پر جو ظلم ڈھائے ہیں اور آج بھی ڈھارہی ہے وہ ہوش ربا ہیں۔ یوگی کہتا ہے: یہ مسلمان دو ٹانگوں والے ایسے حیوان ہیں جن کو روکنا از بس ضروری ہے۔ ہم سب ہندوستان میں ایک مذہبی جنگ کی تیاری کر رہے ہیں۔‘‘
سوامی ادتیا ناتھ وزیراعظم نریندر مودی کا ہم زاد کہلاتا ہے۔ اگست 2015 میں سوامی جی نے ہندو والدین کو خبردار کیا تھا کہ وہ اپنی بیٹیوں کو Love جہاد سے بچائیں۔ مسلمان ہندو لڑکیوں کو شادی کے جال میں پھنسا کر مسلمان کرلیتے ہیں۔ ایک تقریر میں وہ کہتا ہے ’’اگر وہ ایک ہندو لڑکی کا دھرم بدلوائیں گے تو ہم سو مسلمان لڑکیوں کا دھرم بدلوائیں گے۔ مسلمان اسی طرح بے تحاشا بچے پیدا کرتے رہے تو ایک دن دیش میں آبادی کا توازن بگڑ جائے گا۔ سرکار کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کی آبادی میں اضافے پر روک لگانے کی یوجنا (منصوبہ بندی) کرے۔ ایک ہندو مارا جاتا ہے تو ہم پولیس کے پاس نہیں جائیں گے بلکہ دس مسلمان ماریں گے۔‘‘ وہ مدر ٹریسا کو ایسی کرسچن مشنری قرار دیتا ہے جو خدمت کے پردے میں ہندؤں کو عیسائی بنانے کا مشن چلا رہی تھی۔ اس کے ردعمل میں اس نے ’’گھر واپسی‘‘ کے نام سے ایک مہم شروع کی تھی جس میں بڑے پیمانے پر جبراً عیسائیوں کو مذہب تبدیل کرکے ہندو بنانے کی کوشش کی جاتی تھی۔ اس مہم میں مسلمانوں کو بھی ہندو بننے پر مجبور کیا جاتا تھا۔
ہندوستان میں یوگی ادتیا ناتھ سے بڑھ کر مسلمانوں کا دشمن کوئی نہیں۔ اس نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔ وہ فرقہ پرستی کی بنیاد پر ہندو اور مسلمانوں میں کشیدگی پھیلانے میں ہر لمحے مصروف رہتا ہے۔ اتر پردیش کے ایک گاؤں سکت پور میں مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکا جارہا ہے۔ انتہا پسند ہندو کہتے ہیں کہ ان کی حکومت ہے وہ نماز ادا کرنے نہیں دیں گے۔ مسلمانوں کو اگر نماز پڑھنی ہے تو گھر میں پڑھیں۔ سوامی کی اشتعال انگیز تقریروں نے گورکھپور میں فسادات کی آگ بھڑ کائی۔ 2007 اور 2009 میں سوامی کی تقریریں ہی فسادات کا باعث تھیں۔ جن میں کئی مساجد شہید گئیں۔ فروری 2015 میں بنارس میں اس نے کہا تھا ’’اگر موقع ملا تو ہم ہر مسجد میں گنیش جی کی مورتیاں نصب کریں گے‘‘ اسی برس سوریہ نمسکارم پر زور دیتے ہوئے اس نے کہا تھا ’’جو لوگ سوریہ نمسکار کہنے سے انکار کریں انہیں ہندوستان سے چلا جانا چاہیے۔ سوریہ نمسکار سے انکار کرنے والوں کو سمندر میں غرق کردینا چاہیے یا پھر عمر بھر ایک تاریک کمرے میں بند کردینا چاہیے۔‘‘ 1999 میں مہاراج گنج کے ایک گاؤں میں مسلمانوں کے قبرستان پر قبضہ کرکے اس نے وہاں پیپل کے درخت لگوا دیے تھے۔ جس سے ہندوؤں اور مسلمانوں میں سخت کشیدگی پھیل گئی تھی۔ الیکشن مہم میں یوگی نے مسلمان عورتوں کے بارے میں انتہائی بیہودہ زبان استعمال کی تھی۔ اس کا کہنا ہے کہ ’’اگر میرے بس میں ہو تو مری ہوئی مسلمان عورتوں کو قبروں سے نکال کر ان پر جنسی تشدد کروں۔‘‘ عام مسلمان ہی نہیں عامر خان اور شاہ رخ بھی یوگی کی نفرت کی زد پر رہتے ہیں۔ وہ ان دونوں مسلمان فنکاروں کو ہندوستان چھوڑنے کا مشورہ دے چکا ہے۔ عامر خان کو وہ مشکوک قرار دیتا ہے۔ شاہ رخ کے بارے میں اس کا کہنا ہے ’’اگر لوگ اس کی فلمیں دیکھنا چھوڑدیں تو وہ بھی کسی معمولی مسلمان کی طرح گلیوں میں مارا مارا پھرے گا۔ یہ لوگ آتنک وادھ (دہشت گردی) کی زبان بولتے ہیں۔ شاہ رخ اور حافظ سعید کے وچاروں (خیالات) میں کوئی فرق نہیں۔‘‘ 2016 میں پٹھان کوٹ میں ہندوستانی فضائیہ کے اڈے پر حملہ ہوا تو یوگی نے پاکستان کے بارے میں زہر اگلتے ہوئے کہا ’’پٹھان کوٹ پر حملے نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ شیطان کو تو تبدیل کیا جاسکتا ہے اور راہ راست پر لایا جا سکتا ہے لیکن پاکستان کو نہیں۔‘‘ مسلمانوں کے باب میں گاندھی جی کی خوش کن باتوں اور نہرو کے سیکولر ازم، عیاری اور منافقت سے گزرتا برہمن کے حقوق کا محافظ ہندوستان آج ہندو جنونیت کے شکنجے میں ہے۔ دہلی پر راشٹریہ سیوک سنگھ کے ہندو بلوائی قابض ہیں۔ ہندوستان کی مسلم آبادی کے ساتھ جو سلوک کیا جارہا ہے اسے پڑھ کر 1947 کے مشرقی پنجاب کے ہولناک واقعات یاد آجاتے ہیں۔ ہندوستان کی سیاست میں کامیابی کا انحصار آج پاکستان اور مسلم دشمنی ہے۔ یہ اشتعال انگیز اور فکری بانجھ پن بھارت کو کہاں لے جائے گا اس کے لیے کسی نجومی سے دریافت کرنے کی ضرورت نہیں۔