دنیا بھر میں اسلامی بینکنگ کی گروتھ میں تیزی آرہی ہے،جمیل احمدخان

341

کراچی(اسٹاف رپورٹر)ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان جمیل احمدخان نے کہا ہے کہ دنیا بھر میں اسلامی بینکنگ کی گروتھ میں تیزی آرہی ہے،برطانیہ،ہانگ کانگ اور دیگر ایسے ممالک میں اسلامی بینکنگ کو بطور بزنس استعمال کیا جارہا ہے اور ان ممالک کے بینکس اپنے بزنس کا دائرہ بڑھا رہے ہیں۔انہوں نے ان خیالات کا اظہار ایف پی سی سی آئی میں اسلامی بینکنگ کے بارے میں ہونے والے سیمینار سے خطاب کے دوران کیا۔سیمینار سے فیڈریشن چیمبر کے صدر زبیرطفیل،مذہبی اسکالرمفتی نجیب احمدخان، ایف پی سی سی آئی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے اسلامی بینکنگ وتکافل محمودارشد،ڈائریکٹر اسٹیٹ بینک غلام عباس اورمیزان بینک،بینک الفلاح،دبئی اسلامی بینک اور دیگر بینکوں کے نمائندوں سمیت دیگر مقرر ین نے بھی خطاب کیا۔ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمدخان نے کہا کہ سعودی عرب میں 60فیصد کام شریعہ بیس ہے جبکہ پاکستان میں صرف13فیصد کام ہورہا ہے،ہم آج بھی اسلامی بینکنگ سسٹم کو سمجھ ہی نہیں پائے ہیں اور نہ ہی خدشات دور کیے جاسکے ہیں حالانکہ ہمارے اسلامی اسکالرز بتارہے ہیں کہ کون سی اسلامی پروڈکٹس ہیں جنہیں ہمیں اپنانا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں اسلامی بینکاری کی گروتھ میں گزشتہ10سال کے دوران تیزی آئی ہے ان میں بالخصوص ملائشیا،ایران ،پاکستان اور دیگر مسلم ممالک شامل ہیں،پاکستان میں6مکمل اسلامی بینک کام کررہے ہیں جبکہ بہت سے بینکس اپنی اسلامی ونڈوز قائم کر چکے ہیں،ہم نے 2020ء تک کے لیے پانچ سالہ پلان بنایا ہے،2018ء تک اسلامی بینکاری کو15فیصدتک لے جائیں گے جبکہ2020ء تک یہ شرح20فیصد تک پہنچائی جائے گی۔ایف پی سی سی آئی کے صدر زبیرطفیل نے کہا کہ دنیا بھر میں ٹریڈیشنل بینکنگ رائج تھی مگر سب سے پہلے سعودی عرب میں اسلامی بینکاری کا آغاز ہوا اور پاکستان میں سب سے پہلے میزان بینک نے اسلامی بینکنگ کی شروعات کی۔
،اسٹیٹ بینک کی جانب سے رہنمائی کے بعد بہت سے بینکس اسلامی بینکاری کی جانب راغب ہوئے، اسلامی بینکنگ کے فروغ میں ہمارے اسلامک اسکالرز کا نمایاں کر دار رہا ہے کیونکہ انہوں نے قوم کی رہنمائی کی جس سے وہ اسلامی بینکنگ کی جانب آئے اوراب ملک میں بزنس مین بھی اسلامی بینکاری کا نمایاں حصہ بن چکے ہیں۔انہوں نے کہا کہ دنیا بھر میں ایک ارب60کروڑ مسلمان ہیں اور اگر وہ سب طے کرلیں کہ آئندہ پانچ سال میں انہیں اسلامی بینکاری کو اپنا کر آگے چلنا ہے تو اسلامی بینکنگ کی شرح بڑھ سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ اسلامی بینکس ہاؤسنگ انڈسٹری کے لیے بھی پروڈکٹس لائیں تاکہ درمیانے درجے کے شہری اپنا مکان حاصل کرسکیں۔مذہبی اسکالر مفتی نجیب احمدخان نے کہا کہ پاکستان میں 1980میں اسلامی بینکنگ کا آغاز ہوا اور اس میں بڑے اسٹیک ہولڈرز کو تاخیر سے شامل کیا گیا ،اس وقت چندتاجروں میں یہ فکر بھی لاحق ہوئی کہ نظام میں تبدیلی کیسے آئے مگراب وہی اسلامی بینکنگ اپنا رہے ہیں،جولوگ نفع کی نیت سے کاروبار کریں اللاس کی روزی میں برکت دیتے ہیں،حلال کی برکت سے معاشرہ سدھر رہا ہے،عام افراد کو ٹی ایف سیز میں لایا جائے تاکہ ان کی دعاؤں سے برکت ہو اور منافع ملے،عام افراد کیلئے آسان پروڈکٹ لانی ہونگی۔انہوں نے کہا کہ ایک صحابی بھی ایسا نہیں جسے اللہ نے مال دیا ہواور اس نے وقف نہ کیا ہو،وقف کی سنت کو ہمیں زندہ کرنا ہوگا۔ایف پی سی سی آئی کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے اسلامی بینکنگ وتکافل محمودارشد نے سیمنار میں تکافل کے بارے میں خیالات کا اظہار کیا۔