ائرپورٹ سیکورٹی کے عملے کا رویہ اور بخشش

172
میری بیٹی اپنی والدہ کی تیمار داری کے لیے شارجہ سے کراچی صبح 7 بجے کی فلائٹ پر آئی۔ کراچی میں لینڈ کرنے کا وقت 9:55 مقرر تھا۔ رکشے کے ذریعے پہنچا صبح کے 9189 بج چکے تھے رکشا اندر جانا ممنوع تھا۔ ائر پورٹ کی حدود کے باہر ہی آہنی گیٹ کے قریب کئی کئی درجن بوڑھے، ضعیف خواتین و نوجوان لڑکیاں بھی جن کے چہرے پہ پریشانی عیاں تھی جب کہ گیٹ کے دوسرے جانب بھی قطار لگی ہوئی تھی۔ وہاں بھی یہی صورت حال تھی۔ ائر پورٹ کا سیکورٹی عملہ بڑی مشکل سے اجازت دے رہا تھا مجھے بھی لائن میں کھڑا کردیا گیا۔ راقم الحروف اندر جانے کا تقاضا کرتا رہا، شناختی قومی علامت ظاہر کرتا رہا اور بھی لوگ اپنی اپنی شناخت بتارہے تھے اور بلبلا رہے تھے، سیکورٹی عملہ سب کو دھکا دے کر پیچھ کر رہا تھا اتنے میں ایک سمجھدار افسر سے انگریزی میں ہم کلام ہوا۔ اخباری معاملات سے آگاہ کرنے پر اجازت ملی، فوراً جناح ائر پورٹ کے لاؤنچ تک پہنچتے ہی میری بیٹی ندا انعام پر نظر پڑی جو اپنی دو سالہ بیٹی کے ہمراہ نظر دوڑا رہی تھی کہ میں نے لپک لیا جو قلی کے ساتھ سامان کے ہمراہ باہر آرہی تھی، قلی نے ٹرالی میٹرو ریڈیو کیب جو ائرپورٹ لاؤنچ کے قریب ہی ایجنسی تھی کھڑی کرکے کیب کے حوالے کردیا، میٹرو کیب ایجنسی نے فاصلہ اور پہنچنے والی جگہ کا معلوم کیا۔ 15 کلو میٹر کا فاصلہ تھا، میٹرو کیب نمبر BED 636 (A) صبح کے وقت 10:45 پر روانہ ہوئی، ڈرائیور کوڈ نمبر 6632 لکھا تھا جو وقار احمد کے نام سے ظاہر ہورہا تھا۔ 25 منٹ پر منزل مقصود پر گاڑی پہنچ گئی، سامان اُتارا کرایہ ادا کیا۔ راقم الحروف سے مطالبہ کرتا رہا بخشش کا روانگی کا پرچہ میرے ہاتھ میں پکڑانے والا اور ڈرائیور تک پہنچانے والا الگ تقاضا کررہا تھا جب کہ گاڑی روانہ ہونے والی تھی اندر سے سامان لانے والے قلی نے اندر ہی 500 روپے وصول کرلیے تھے، بطور بخشش میری بیٹی سے۔ جب کہ میں نے سب ہی کو دینے سے انکار کیا۔ ان قلیوں اور کیب ڈرائیوروں اور ماچس و سگریٹ طلب کرنے والوں کو کس نگاہ سے دیکھا جائے، عام بھکاری اور ان میں کیا فرق رہ گیا۔ معاشرے میں بگاڑ کا سبب کون ہے۔
محمد آصف رضا، گلشن اقبال کراچی