سرکلر ریلوے تین سال بعد چل پڑے گی؟؟

237
منظور احمد رضی
وفاقی حکومت، سندھ حکومت اور ریلوے نے بھی طے کرلیا ہے کہ اب کراچی سرکلر ریلوے (KCR) کو سی پیک کے منصوبے کے تحت تین سال میں چلا دیا جائے گا؟؟ اس پر کام بھی جاری ہے، تاحال تجاوزات ہٹانے کا مسئلہ ہے اور کہیں کہیں صفائی بھی کی گئی ہے دیگر انتظامات بھی کرلیے گئے ہیں حکومت کا موقف ہے کہ ہم کراچی کے شہریوں کو بہترین تحفہ دیں گے تا کہ شہری ٹرانسپورٹ مافیا کے چنگل سے کسی طرح آزاد ہوسکیں۔
میرا چوں کہ ریلوے سے گہرا تعلق تھا اور اب بھی ہے۔ میں 1945ء میں کراچی سٹی ریلوے کالونی میں پیدا ہوا۔ والد 1940ء میں ریلوے میں ملازم ہوگئے تھے۔ سو میں بھی ریلوے کالونی میں پلا بڑھا۔ مختصر یہ کہ ایوب خان کے دور حکومت میں ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے زیادہ تر افراد کراچی آگئے۔ کراچی شہر خالی تھا آبادی کم تھی لوگ آباد ہوگئے، ایوب خان کے ایک جنرل اعظم خان نے مہاجرین کو بسانے کے لیے لانڈھی، کورنگی، ملیر، ڈرگ روڈ کالونی میں سرکاری کوارٹرز بنائے جہاں یہ لوگ آباد ہوئے۔ چوں کہ ریلوے کا نظام موجود تھا اس لیے کراچی سٹی اسٹیشن تا لانڈھی تک لوکل ٹرینیں چلائی گئیں تا کہ اس میں عام مسافر سفر کرسکیں، 25 پیسے ٹکٹ مقرر کیا گیا۔ اس طرح کراچی سٹی تا لانڈھی اور ملیر کینٹ ٹرینیں چلائی گئیں۔ اسی دوران طے کیا گیا کہ پورے کراچی کو محفوظ کرنے کے لیے کراچی سرکلر ریلوے بھی چلائی جائے تا کہ عوام کو بہتر سفری سہولتیں فراہم کی جائیں۔ یہ منصوبہ 1958ء تا 1968ء تک مکمل ہونا تھا چوں کہ کراچی کی آبادی بڑھ رہی تھی نئی نئی آبادیاں بن رہی تھیں اس لیے لوکل ٹرین کا نظام ضروری تھا جب کہ کراچی میں ویگن اور بسوں کا نظام برائے نام تھا۔ قصہ مختصر کراچی سرکلر ریلوے کا پروگرام 1969ء میں مکمل ہوگیا اس طرح مین لائن پر لوکل ٹرینوں کے علاوہ میل ایکسپریس ٹرینیں بھی چلتی رہیں جو ڈرگ روڈ اور لانڈھی اسٹیشن پر کھڑی ہوتی تھیں بعد میں لوکل ٹرینوں کی تعداد بڑھا دی گئیں۔ ایوب خان کے دور میں لانڈھی انڈسٹریل ایریا قائم ہوچکا تھا پھر (PIDC) پاکستان انڈسٹریل ایریا کے تحت سائٹ میں بھی ملیں اور کارخانے لگنا شروع ہوگئے تھے۔ لاکھوں مسافر ان ٹرینوں میں سفر کرنے لگے کراچی سٹی تا لانڈھی اور ملیر کینٹ کے لیے 28 ٹرینیں اپ میں جاتی تھیں اور اسی طرح 28 ٹرینیں ڈاؤن میں آتی تھیں۔ بعدازاں سرکلر ریلوے بھی چل پڑی جو لانڈھی، ملیر، کینٹ کے بعد ڈرگ روڈ اور ڈرگ کالونی سے براستہ ہوتی ہوئی ڈپو ہل اردو کالج، کراچی یونیورسٹی (گیلانی) لیاقت آباد، ناظم آباد، اورنگی ٹاؤن، منگھوپیر، سائٹ، بلدیہ، لیاری اور وزیر مینشن (ٹاور) تک چلائی گئیں۔ 1970ء میں وزیر مینشن سے توسیع کرکے کراچی پورٹ ٹرسٹ اور کراچی سٹی پر پلیٹ فارم 5-6 کا اضافہ کرکے اس پورے سرکل کو مکمل کرلیا گیا۔
مجھے یہ بھی اعزاز حاصل رہا ہے کہ جنوری 1970ء میں کراچی کے پلیٹ فارم 5-6 جو نیشنل بینک ہیڈ آفس کے ساتھ منسلک ہے پہلا ٹکٹ میں نے جاری کیا جو پی ٹی وی پر دکھایا گیا۔ وائس چیئرمین ریلوے ڈی ایس کراچی نے لائن میں لگ کر مجھ سے ٹکٹ حاصل کیا۔ لوکل ٹرینیں 41 اپ میں 41 ڈاؤن میں چلنے لگیں۔ یہ لوکل ٹرینیں 1995ء تک بڑی کار آمد رہیں۔ پھر اس کا کرایہ 2 روپے پھر 5 روپے پھر 7 روپے اور بعد میں 10 روپے ہوگیا۔ بعد میں ٹرانسپورٹ مافیا بھی آگئی کرائے بڑھ گئے جو کراچی سٹی تا لانڈھی 55 منٹ کا تھا اب ایک گھنٹے بیس منٹ ہوگیا جب کہ سرکلر ریلوے کا ٹائم 2 دو گھنٹے ہوگیا۔ بغیر ٹکٹ کا رجحان بڑھ گیا ٹرینیں لیٹ ہونا شروع ہوگئیں خسارہ بڑھ گیا۔ اس طرح ریلوے کے چیئرمین جو بعد میں وزیر ریلوے بھی بنے۔ جاوید اشرف قاضی ریٹائرڈ جنرل تھے، 1999ء میں سرکلر کی لوکل ٹرینیں خسارے کا بہانہ بنا کر بند کردی گئیں اس طرح 1999ء سے سرکلر ریلوے بند پڑی ہے بعد میں اس کو چلانے کا منصوبہ 2005ء میں بنایا گیا تاحال سرکلر ریلوے نہیں چلی۔ اب آخر میں پھر وفاقی حکومت، صوبائی حکومت، شہری حکومت کو خیال آیا کہ سرکلر ریلوے چلنی چاہیے۔ سو اب نئی صورت حال کے تحت جو میڈیا میں خبریں بھی بن رہی ہیں پہلے سرکلر ریلوے کو جاپان کی مدد سے جائیکا کے ذریعے 5 سال بعد 2019ء تک چلایا جانا تھا جس پر 240 ارب خرچ آنا تھا مگر یہ منصوبہ چل نہیں سکا، حکومت سندھ، ریلوے، شہری حکومت اور وفاقی حکومت نے مل کر جاپان سے معاہدہ منسوخ کیا اس پر کتنا نقصان ہوا یہ لکھنا اب بیکار ہے مختصراً اب سی پیک کے تحت چین اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچائے گا اور اس پر 276 ارب خرچ آئے گا۔ ان ٹرینوں پر 6 لاکھ مسافر روزانہ سفر کریں گے اور کرایہ 16 تا 24 روپے ہوگا۔ ریلوے میں 34 اسٹیشن بنائے جائیں گے جو انڈر گراؤنڈ اور اُونچی سطح پر بھی اور زمین پر بھی ٹرینیں چلیں گی۔ دیکھیں کب چلے گی؟ ہم منتظر رہیں گے۔