غفلت یا سر کشی نفس؟

265
بینا حسین خالدی ایڈووکیٹ
سانحہ احمد پور شرقیہ پر لوگوں کی آرا، تبصرے اور تاثرات متواتر سامنے آتے رہے ہیں، کسی نے کہا کہ؂
لوگ رُکے نہیں حادثہ دیکھ کر…..
جس کا ایک مفہوم تو یہ تھا کہ جائے حادثے پر لوگ جلتے ہوئے لوگوں کو بچانے اور امدادی کارروائیوں میں حصہ لینے کے لیے نہیں رُکے لیکن جب اس سانحے کے صرف دو ہی دن بعد کراچی اور حیدر آباد کے درمیان آئل ٹینکر کے اُلٹنے کا حادثہ ہوا تو وہاں پر بھی لوگوں نے موقعے پر اکٹھا ہو کر تیل کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کا سنہری موقع ضائع نہیں کیا اور برتنوں میں تیل بھرنے لگے۔ صد شکر کہ اس مرتبہ آگ بھڑکنے کا حادثہ تو پیش نہیں آیا لیکن یہاں بھی لوگ رُکے نہیں حادثہ دیکھ کر….. والا مصرع اس مفہوم میں بولا جانا چاہیے کہ اتنے بڑے سانحے کے بعد بھی لوگ اپنی حرص و ہوس پوری کرنے کے طرزِ عمل سے باز نہیں آئے۔ جس سانحے نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا اس کے بعد بھی لوگ نہیں رُکے اپنی لالچ کو پورا کرنے سے….. کسی نے کوئی سبق حاصل نہیں کیا….. کسی نے اپنے آپ کو نہیں روکا۔ ایسی خطرے والی جگہ پر اکٹھا ہونے سے….. لوگوں کے اس طرزِ عمل کو کیا نام دینا چاہیے؟ لالچ؟ غفلت؟ یا سرکشی نفس؟۔ جہاں تک غربت اور محرومی کا تعلق ہے تو آج سے چالیس سال پہلے بھی پاکستان میں غربت اور محرومی ایسی ہی تھی جیسی کہ آج ہے، پہلے بھی انتظامیہ اور ادارے ہر وقت کسی ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے الرٹ نہیں ہوا کرتے تھے اور آج بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ لیکن پاکستان کی تاریخ میں اس نوعیت کا المناک سانحہ شاید ہی کبھی ہوا ہو۔ اور اس سے بھی بڑا سانحہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرتی روّیوں میں اخلاقی زوال اس قدر تیزی سے رونما ہو رہا ہے کہ ہم اب سانحات سے بھی کوئی سبق حاصل نہیں کرتے۔ معاشرتی رویوں کا یہ بگاڑ ہمارے لیے لمحہ فکر ہے کہ کیا ہمارا معاشرہ ناقابلِ اصلاح ہوچکا ہے؟۔
سوشل میڈیا کے ذریعے اس سانحے کی تصاویر ہر فرد کے ہاتھ میں پہنچی تھیں۔ لوگوں کی کوئلہ بنی مسخ شدہ لاشیں، آدھے کٹے ہوئے دھڑ، بکھرے ہوئے اعضا، معصوم بچوں کے لاشے۔ کیا ان میں سے کوئی ایک منظر بھی ہماری غفلتیں دور کرنے اور نصیحت کے لیے کافی نہ تھا کہ صرف دو دن بعد ہی لوگوں پر حرص و لالچ کا غلبہ پھر عود کر آیا اور وہ پھر ایک دوسرے موقعے پر اُلٹے ہوئے آئل ٹینکر سے تیل جمع کرنے کے لیے اکٹھے ہوگئے؟۔ کیا چند سو یا چند ہزار روپے کے پیٹرول کو مفت حاصل کرکے غربت اور محرومی دور ہوجاتی ہے؟ غربت اور محرومی کی بات تو الگ ہے یہاں تو کھاتے پیتے گھرانوں کے من چلے نوجوان محض سنسنی حاصل کرنے کے لیے سڑکوں پر وَن ویلنگ کرتے ہوئے جان کی بازی ہار جاتے ہیں پھر بھی وَن ویلنگ کے واقعات بند نہیں ہوتے بلکہ بڑھتے ہی جاتے ہیں۔ بجلی چوری کرنے کے لیے ہائی وولٹیج تاروں میں کنڈے لگانا، چند روپوں کی پتنگ چھڑانے کے لیے بجلی کے کھمبوں پر چڑھ جانا، بسوں ویگنوں پک اپ کاروں میں مسافروں کو چھتوں پر بٹھا کر بلکہ لاد کر تیز ڈرائیونگ کرنا اور اِسی طرح کے بے شمار مظاہر ہمارے معاشرے کے بگاڑ کا ثبوت نہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ الیکٹرونک و سوشل میڈیا نوجوانوں میں فحاشی پھیلا رہا ہے پھر بھی ہمارے گھروں میں گھر کے ہر فرد کے ہاتھ میں موبائل ہے، انٹرنیٹ ہے، سی ڈی پلیئرز، ڈی وی ڈی، ٹی وی، کیبل ڈش اور نہ جانے کون کون سی الیکٹرونک مصنوعات کی بہتات سے ہمارے گھر بھرے ہوئے ہیں اور جب سیأت پھل پھول کر سانحات کو جنم دے لیتی ہیں تب بھی ہم حادثات و سانحات کو قسمت کا لکھا جان کو دوچار دن سوگ مناتے ہیں اُس کے بعد پھر کاروبارِ زندگی اُسی ڈگر پر رواں ہوجاتا ہے، رویوں میں کوئی تبدیلی نہیں آتی، غفلتوں کا جمود اُسی طرح چھایا رہتا ہے۔ غفلت کی بھی شاید ایک حد ہوتی ہے لیکن جب انسان جانتے بوجھتے، عقل و شعور رکھتے ہوئے اپنی سابقہ روش پر قائم رہیں تو قرآنی تعلیمات کے مطابق تو یہ سرکشی نفس ہے….. یہ نفس کی سرکشی نہیں ہے تو اور کیا ہے کہ انسان ایسے رویوں کا مظاہرہ کرنے لگ جائیں کہ خواہ جل کر کوئلہ ہی کیوں نہ بننا پڑے۔ میں تو اپنے نفس کا حرص پورا کرکے ہی رہوں گا۔ خواہشِ نفس کی غلامی کہاں تک لے گئی انسان کو ۔
سچ فرمایا حق تعالیٰ نے قرآن میں کہ : ایک دوسرے سے بڑھ کر دنیا کو حاصل کرنے کی حرص تمہیں کہاں لے گئی۔ تم اس کی حرص میں بڑھتے ہی چلے گئے یہاں تک کہ قبروں میں جا پہنچے، اور قرآن میں ہی ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون جس نے اپنی خواہش نفس کو اپنا معبود بنالیا ہے۔ اور اس کی وجہ سے بھی آگاہ فرماتے ہیں باری تعالیٰ۔ کہ… انسان جلدی حاصل ہو جانے والے فائدوں سے محبت کرتا ہے اور ان کی محبت اس پر ایسا غلبہ پالیتی ہے کہ جیسے انسان کسی حسین عورت کی محبت میں اندھا ہو کر عقل و خرد سے بے گانہ ہوجائے اور محیر العقول حرکتیں کرنے لگے۔ اپنے آپ کو سرکش نفس کے حوالے کردینے کا انجام دنیا میں بھی المناک اور آخرت میں بھی ہولناک بھڑکتی ہوئی آگ کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے۔ لیکن لوگ کم ہی غور کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تو رحمن بھی ہیں اور رحیم بھی اس کی رحمٰنیت تو ایک لفظ میں سموئی ہی نہیں جاسکتی۔
دنیا میں جتنے بھی المناک، خوفناک اور درد ناک واقعات یا سانحات اور حادثات ہورہے ہیں ان کے لیے ہمارے معاشرے کی سوچ کا دائرہ بس اس حد تک محدود ہے کہ ہم سمجھتے ہیں یہ سب کچھ قسمت کا لکھا ہوا تھا۔ اللہ کو اسی طرح منظور تھا۔ ہمارا میڈیا اور اس کے تمام ذرائع بھی کسی سانحے یا حادثے کو محض ایک حادثے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ انتظامیہ اور حکومت کو لعنت ملامت کرتے ہیں اور پھر خاموشی چھا جاتی ہے۔ دنیا میں جتنے بھی واقعات ہورہے ہیں ان میں اللہ تعالیٰ مشیت ضرور کار فرما ہے لیکن سانحات و مصائب کے واقع ہونے میں اس کی رضا شامل نہیں ہے۔ مشیتِ ایزدی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ بُرائی، بدی، درندگی، شیطانیت، حرص و ہوس اور اس طرح کے تمام بُرے جذبوں اور طاغوتی طاقتوں کو بھی دنیا میں پھلنے پھولنے کا خوب موقع دیتے ہیں تا کہ بدی اور طاغوت کے پیروکار جب دنیا کے ختم ہوجانے کے بعد ربّ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں تو اپنی بدی پر اپنے گناہوں پر خود گواہ بنیں اور کوئی بھی ایسا شخص نہیں جس نے اپنی سرکشی نفس کے ہاتھوں مجبور ہو کر خود اپنے اوپر ظلم کیا ہو یا کسی دوسرے پر ظلم کیا ہو۔ اور ایسا ظلم یا سرکشی خواہ عالمی سطح پر اُمتِ مسلمہ پر ڈھایا جارہا ہو، خواہ خود اُمتِ مسلمہ اپنے اوپر کررہی ہو، یہود اور عیسائی کرتے ہوں یا نبی سیّدنا محمدمصطفیؐ کے پیروکار، اُن سے محبت و عقیدت کا دعویٰ کرنے والے مسلمان کرتے ہوں، اللہ کے ہاں کوئی بھی شخص روزِ جزا کے دن یہ نہ کہہ سکے گا کہ میں تو خواہ مخواہ ہی مارا گیا۔ مجھے تو بے قصور ہی جہنم میں دھکیلا جارہا ہے۔ رہے وہ لوگ جو دنیا میں مظلومانہ مارے گئے اور آج بھی مارے جارہے ہیں اُن کے لیے بھی اللہ تعالیٰ کی رحمٰنیت اس کا فضل اس کی بخشش و عطا پوری طرح فعال و متحرک ہے۔ اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھنی چاہیے اور دُعا کرنی چاہیے کہ دنیا میں جس نے جتنی بھی تکالیف اُٹھائیں اس کے ان مصائب کو اس کے لیے آخرت میں مغفرت کا سبب بنادے۔ بشرطیکہ اس کا خاتمہ شرک پر نہ ہوا ہو۔
دُنیا کے حالات تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں۔ واقعات و حادثات بڑھتے چلے جارہے ہیں، اس میں لوگوں کے لیے نصیحت کا پہلو یہ ہے کہ دنیا تیزی سے اپنے انجام کی طرف رواں دواں ہوچکی ہے۔ وقت کی یہ تیز ہوتی ہوئی گردش ہمیں پکار رہی ہے کہ سنبھل جاؤ…. توبہ کرلو….. باز آجاؤ….. لیکن حضرتِ انسان اب بھی سنبھلنے کو تیار نہیں ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ اب دُنیا میں اموات وارِد ہورہی ہیں تو سیکڑوں اور ہزاروں کو ایک ہی پل میں اپنا لقمہ بنالیتی ہیں۔ فرشتہ اجل ایک پل میں ہزاروں اور سیکڑوں روحوں کو قبض کرنے کے لیے آتا ہے۔ اس لیے کہ وقت کم اور کام زیادہ ہے۔ دنیا جارہی ہے آخرت نزدیک آرہی ہے۔ ارض و سماوی آفات اور طاغوتی طاقتیں گویا دونوں مل کر دنیا کو، کرۂ ارض کو حشر کا میدان بنانے کے لیے صفایا کرنے پر لگ گئی ہیں اور یہ صفایا مسلمانوں ہی کا کیوں ہورہا ہے۔ اجتماعی قبریں دریافت ہوتی ہیں یا زندہ درگور کیا جارہا ہے تو مسلمانوں ہی کے لاشے ملتے ہیں۔ جنگ مسلط کی جارہی ہے تو مسلمانوں ہی پر۔ سانحات و حادثات میں مر رہے ہیں تو مسلمان ہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی مشیت اگر یہ ہے کہ کرۂ ارض سے انسانوں کو تیزی کے ساتھ اُٹھا لینا ہے تو یہود و نصاریٰ پر ایسی قیامتیں کیوں نہیں ٹوٹ رہیں؟ وہ تو عیش کررہے ہیں، وہاں تو کبھی کوئی آئل ٹینکر نہیں پھٹتا ہے نہ ہی کوئلہ بنی ہوئی لاشوں کے منظر دیکھے جاتے ہیں۔
انسان جیسی اور جتنی کوشش کرتا ہے ویسا ہی پاتا ہے۔ اُن کی کوششیں زندگی کو زیادہ سے زیادہ محفوظ، آرام دہ، پُرتعیش، دلکش اور پُرلطف بنانے کے لیے ہیں ان کی معاشرتی زندگی، انتظامیہ، عدلیہ کے نظام انہوں نے زیادہ سے زیادہ موثر بنائے ہیں وہ اپنی کوششوں کے مطابق دنیا میں صِلہ پارہے ہیں۔ سورۃ البقرہ میں ارشادِ ربانی ہے کہ جو کفر کریں گے انہیں بھی میں دنیا کی تھوڑے دن کی زندگی کے تھوڑے سے فائدوں سے متمتع ہونے کا موقع دوں گا۔ اللہ ہر حال میں ہمیشہ رحمن اور رحیم ہی ہے کہ کفر کرنے والوں پر بھی دنیوی نعمتوں کے دروازے بند نہیں کرتا۔ ان کی کوششوں کو، جو انہوں نے بھلائی، رفاہِ عامہ، انسانیت کی خدمت اور بہترین معیشت و نظامِ حکومت کے لیے کی ہیں اُن کو بھی اللہ تعالیٰ دنیا میں کامیاب فرماتا ہے۔ رہے مسلمان تو اُن کی کوششیں پاکستانی معاشرے میں رہتے ہوئے نہ ہی تو اپنی دنیا سدھارنے کے لیے ہیں نہ ہی فکرِ آخرت کی کوئی جھلک ہی ان کے قول و فعل میں نظر آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ پھر بھی رحمن و رحیم ہیں جب لوگ کسی بھی طرح توبہ کے دروازے کی طرف بلائے جانے پر نہیں آتے تو پھر وہ مصائب بھیج کر بلاتا ہے۔ لیکن آفات و حادثات کو بھی ہمارے معاشرے میں ’’انجوائے‘‘ کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ پچھلے دِنوں سوشل میڈیا پر ایک تصویر دیکھی جس میں گلی محلوں میں سیلاب کا منظر تھا اور سیلاب کا پانی تقریباً تین فٹ اُونچا دکھائی دے رہا تھا۔ ایسی ہی ایک گلی کے بیچ میں ایک فیملی کے مرد و خواتین سیلابی پانی کے بیچ میں ٹیبل چیئرز بچھائے چائے پی رہے تھے اور ان کے چہروں سے یوں لگ رہا تھا کہ آپس میں خوش گپیاں کررہے ہیں۔ ایسے رجحانات و رویوں کی حوصلہ شکنی کے لیے میڈیا کے تمام ذرائع کو چاہیے کہ وہ حادثات و مصائب کو محض قسمت کا لکھا ایک واقعہ یا حادثہ بنا کر پیش نہ کریں بلکہ واقعے کے عبرت آموز پہلوؤں کو اُجاگر کریں اور اہل قلم اور دانشور حضرات بھی اپنی آرا اور تبصروں میں نصیحت کے پہلو کو نمایاں کریں۔ اگرچہ دنیا میں اللہ تعالیٰ نے حضرتِ انسان کی نصیحت کے لیے بے شمار ذرائع بھیجے ہیں کائنات میں جابجا اللہ تعالیٰ نشانیاں مظاہر فطرت کی صورت میں بھی موجود ہیں لیکن ’’لوگ کم ہی غور کرتے ہیں‘‘ (القرآن) اور اب اگر سانحات کو دیکھ کر رجوع الی اللہ نہیں کرنا چاہتے تو شاید قیامت کی گھڑی کا انتظار کررہے ہیں کہ جب میدانِ حشر میں اللہ تعالیٰ کو اپنے سامنے دیکھ لیں گے تو پھر رجوع الی اللہ کریں گے۔
ہم سب کو مل کر آئل ٹینکر حادثے میں مرنے والوں کے لیے دُعا کرنی چاہیے کہ آگ میں جلنے کا جو کرب و اذیت انہوں نے دنیا میں سہہ لیا وہ اذیت اللہ رحمن و رحیم اُن کو آخرت میں نہ دے۔ جیسے دنیا کی عدالت میں ایک مجرم کو دوبار سزا نہیں دی جاتی ہے اسی طرح اللہ کی عدالت سے بھی ان کے لیے دوبارہ ایسی سزا کا فیصلہ نہ سنایا جائے۔ اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے اُن تمام کی مغفرت فرمائے (آمین