یہ ملک ہمارا ہے اس کی ترقی ہماری ذمے داری

239
صبا احمد
صحت ہزار نعمت ہے۔ آنکھیں بڑی نعمت ہے، آزادی لاکھ نعمت ہے۔ اس حوالے سے کہ جب آپ ایک الگ نظریہ اور عقیدہ رکھتے ہیں تو آزادیِ جذبات و احساسات اور زیادہ اہم ہو جاتے ہیں اور اُن کے اظہار و تعمیل کے لیے ایک خطہ زمین کا ہونا ناگزیر ضرورت بن جاتی ہے۔ ہر دور میں مذہب نے اپنی اشاعت و ترویج کے لیے ایک خطہ چُنا تو مسلمانوں کے لیے سرزمین عرب اللہ تعالیٰ نے منتخب کی۔ آدم سے نبیوں کا سلسلہ شروع ہوا اور اختتام فخرزماں سیّدنا محمد اکرمؐ پر تکمیل کو پہنچا، اور نبی کریمؐ نے مکہ سے مدینہ ہجرت کی اور مدینہ منورہ میں اسلامی حکومت قائم کی۔ سیّدنا موسیٰ نے بنی اسرائیل کو آزادی دلوائی۔
ہندؤں اور انگریزوں کے تسلط سے نجات کے لیے اور اسلام کی ترقی و خوشحالی لوگوں کی آزادی پر منحصر تھی۔ دوسرے لفظوں میں اللہ کے دین کی سربلندی کی لیے مسلمانوں کی آزادی اور خطہ لازم و ملزوم تھا۔ جنگ آزادی 1857ء کے بعد اسلامی حکومت اختتام پزیر ہوئی تو مسلمانوں کی آزادی دین سب سے زیادہ خطرے میں تھی۔ یہ محرکات ہیں، قیام پاکستان کے اور اس الگ اسلامی ریاست کا تصور علامہ اقبالؒ نے دیا اور اس کو عملی جامہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے پہنایا۔ برصغیر کے مسلمانوں کو ایک پرچم تلے اور ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ شہادتوں اور قربانیوں کے بعد مسلمانوں نے یہ پاک سرزمین حاصل کی۔ 27 رمضان اور جمعتہ المبارک یعنی جمعتہ الوداع 14 اگست 1947ء کو وجود میں آیا۔ مسلمانوں نے ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی۔ دھاندلی اور ہٹ دھرمی تقسیم ہند میں ہوئی جس کا ثبوت کشمیر ہے۔ وہاں کے لوگ 70 سال سے آزادی کے لیے کوشاں ہیں۔ آزادی کے لیے شہادت پر شہادت قربانی پہ قربانی کشمیر کا بچہ بچہ اور طالب علم اور خواتین بھوکے پیاسے اور خالی ہاتھ صرف پتھروں اور عزم سے آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ پاکستان کو عالم اسلام کا مضبوط قلعہ بنانا مقصود تھا۔ یہی اللہ کی منشاء، قائد اعظم کا مقصد اور علامہ اقبال کا خواب تھا جو 70 سال گزر جانے کے بعد بھی ابھی تک تکمیل کے مراحل میں ہے۔ اس کو عالم اسلام کا قلعہ اور مضبوط آہنی ہاتھ ہونا چاہیے تھا۔ پہلی اسلامی ایٹمی پاور ہونے کی حیثیت سے حکومت عرب کے ساتھ مل کر یعنی سعودی عرب اور پاکستان کو باہم مل کر مسلمانوں کے مسائل کو حل کرنے اور حفاظت کے لیے مشترکہ لائحہ عمل بناتے مگر وہ اپنی ذمے داری کو نبھانے میں کوشاں نظر نہیں آئے۔ شام، برما، فلسطین اور کشمیر میں مسلمان قتل ہورہے ہیں، ہلاکو خان کی تاریخ کو دھرایا جارہا ہے، شام میں مسلمان اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں شہید ہورہے ہیں۔
ملکی سیاسی حالات حصولِ پاکستان کے مقصد کے نقطہ نظر سے بھی مضبوط نہیں، ہر کوئی حکومت کا بھوکا ہے مگر امن وامان اور ترقی کے لیے پیاسا کوئی نظر نہیں آتا۔ پاکستان کی خوشحالی اور بقا نوجوان نسل کے کاندھوں پر ہے اس کی حفاظت ان کا فرض ہے اور اس کے لیے حب الوطنی کے جذبات کو فروغ دینا اور اس کو سمجھنا آپس میں محبت اور بھائی چارے سے رہنا قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کے خواب کی تکمیل بھی ہوگی اور ملک کے لیے بہت ضروری بھی ہے، اندرونی اور بیرونی سازشیں کتنی ہی کیوں نہ ہوں، وطن سے محبت اور اس کی حفاظت کا جذبہ کبھی آپ کو بیگانہ نہ کرے گا۔
مٹی اور سرزمین سے محبت کرنی چاہیے، پُراُمید رہیں کہ اللہ جو کرے گا بہتر کرے گا۔ یہ وطن ہماری اُمیدوں اور خواہشوں کا مرکز ہے اس کو سرسبز و شاداب، خوشحال اور پرامن بنانا، امن و آشتی کا گہوارہ بنانا ہمارا کام ہے۔