سیسی کی گورننگ باڈی

182

شیخ مجید
حکومت سندھ نے مزدوروں کی فلاح وبہبود کے سہ فریقی ادارہ جات کو بے دریغ لوٹ مار کرتے ہوئے تباہ و برباد کرنے کا مکمل ارادہ کرلیا ہے۔ سہ فریقی فلاحی ادارہ جات میں سندھ حکومت نے اپنے من پسند فیصلے کرنے کے لیے اپنی پسند و مفادات کے پیش نظر صنعت کار اور مزدور نمائندگی کا کوئی واضح و مثبت معیار (جو کہ طے شدہ مسلمہ اصول ہیں) قائم ہی نہ ہونے دیا ہے۔ سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ (SWWB) اپنی ہیت کے اعتبار سے سہ فریقی نہ رہا بلکہ یک فریقی ثابت ہورہا ہے جس میں ریاستی و سیاسی نامزدگی 10 افراد کی ہے جب کہ دو اہم براہ راست فریقین آجر و اجیر کی تعداد 6 ہے۔ لہٰذا کروڑوں روپے کی نئی نویلی چمکتی ہوئی قیمتی کاریں خریدی جارہی ہیں۔ مزدوروں کے فلیٹوں کو جعلسازی کے ذریعے فروخت کیا جارہا ہے، من پسند افسران کے لیے نئے عہدوں پر ترقی کے لیے راہ ہموار کی جارہی ہے۔ لیکن ایک بہت بھونڈا تماشا اس ماہ سندھ سوشل سیکورٹی (SESSI) کی گورننگ باڈی کی تشکیل کے لیے کیا گیا جس میں 3 آجران اور 3 مزدور نمائندگان کو سیکرٹری لیبر سندھ کے جاری کردہ نوٹیفکیشن مورخہ 14 جولائی کے تحت گورننگ باڈی ممبر نامزد کیا گیا ہے۔ جس میں صنعت کار و آجر نمائندگان میں زاہد سعید (KATI) جب کہ دو غیر معروف آجران جن کی تنظیم سے نمائندگی حکومت سندھ نے طلب ہی نہ کی۔ شاہجہان شیخ اور پرنس حامد علی خان کراچی ہول سیل گروسرز ایسوسی ایشن کی جانب سے نامزد کیے گئے ہیں۔ خدا جانے یہ ہول سیل گروسرز کون سا تجارتی و صنعتی گروپ ہے اور ان کے کتنے مزدور سوشل سیکورٹی سندھ میں رجسٹرڈ ہیں؟ نامعلوم۔ 3 مزدور نمائندگان نامزد ممبر میں قاضی محمد حسن بطور جنرل سیکرٹری TNB لبرٹی پاور CBA یونین میرپور ماتھیلو، واحد شورو سندھ مزدور فیڈریشن اور ناصر عزیز منصور نیشنل ٹریڈ یونین فیڈریشن شامل ہیں۔ لیکن ایک سنگین مذاق کرتے ہوئے مورخہ 17 جولائی کو اس حوالے سے نیا نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں مزدور نمائندہ قاضی محمد حسن کے نام کو حذف کرتے ہوئے نیا ممبر محمد خان ابڑو کو بطور نمائندہ آل پاکستان ٹریڈ یونین آرگنائزیشن (APTUO) گورننگ باڈی ممبر نامزد کردیا گیا ہے۔ جن کو بطور لیبر لیڈر سندھ کی مزدور تحریک میں کوئی جانتا ہی نہیں۔ البتہ ان کی وجہ شہرت کچھ اور ہی ہے۔ اب کون سا نوٹیفکیشن 14 یا 17 جولائی کا (valid) مستند مانا جائے گا۔صنعت کار، اجر نمائندگان میں دو افراد کی واضح طور پر جعلی نمائندگی صرف من پسند و مسلط کردہ فیصلوں پر انگوٹھا لگوانے کے لیے ہی کی گئی ہوگی۔ جب کہ 3مزدور نمائندگان بھی متنازعہ نظر آتے ہیں۔ ایک کو خارج کرکے دوسرا نامزد (محمد خان ابڑو) کردیا گیا۔ اس نامزدگی کا طریقہ کار مروجہ ضابطوں کے خلاف ہے جب کہ واحد شورو نمائندہ سندھ مزدور فیڈریشن کے متعلق مذکورہ فیڈریشن کے صدر نے کمشنر (SESSI) کو خط موصول کروایا ہے کہ ہم نے تو واحد شورو کو نہیں بلکہ اپنے جنرل سیکرٹری کو نامزد کیا تھا۔ واحد شورو کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ناصر عزیز منصور طویل عرصے سے مزدور تحریک میں سرگرم عمل ہیں لیکن وہ آج تک کسی صنعتی و تجارتی ادارہ کی ملازمت میں نہیں رہے بلکہ وہ وفاقی حکومت کے ایک ادارے میں بطور سرکاری آفیسر ملازم ہیں۔ لہٰذا ان کی بھی بطور ممبر گورننگ باڈی نامزدگی متنازعہ نظر آرہی ہے۔ کیا اس طریقہ سے سہ فریقی ادارہ جان کے لیے تشکیل کردہ گورننگ باڈی کوئی مثبت و تعمیری کام جس کا تعلق براہ راست مزدوروں کی فلاح وبہبود سے ممکن ہوسکے آزادانہ و غیر جانبدارانہ ماحول میں کرسکتی ہے۔ ناممکن!