غزہ کا قید خانہ

296

حسن علی امام

ابھی پچھلے ہی سال کی بات ہے کہ بحرِ مردار کی چنچل لہروں سے اٹکھیلیاں کرتی چند اسرائیلی خواتین،دنیا کی توجہ پہلے اپنی طرف پھر اپنے توسط سے بحرِ مردار میں کم ہوتی ہوئی پانی کی سطح کی طرف مبذول کرانا چاہتی تھیں۔ پہلے مقصد کی بھر پور کامیابی کے بعد اس بات کی اُمید بڑھ جاتی ہے کہ لوگ بحرِ مردار پر بھی توجہ دیں۔ ایک ماحولیاتی ادارے کی جانب سے بحرِ مردار کو ساحلِ مراد میں تبدیل کرنے اور سطحِ آب کے اُتر جانے کی جانب توجہ دلانے کی کوشش اپنی جگہ، مگر انہیں دنوں بحیرۂ روم میں دم توڑتی زندگی نے آنکھوں میں پانی کی سطح کو بلند کر دیا تھا۔ یورپ کی طرف ہجرت کرنے والے گھرانے،تکلیف دہ راستوں،حوصلہ شکن مشکلات اور نامساعد حالات سے لڑتے جھگڑتے، ملکوں ملکوں خاک چھانتے پھر رہے تھے۔
عارضی ٹھکانوں کی تلاش میں ہمیشہ کے زخم پانے والے ان تارکینِ وطن میں کچھ ایسے بھی تھے، جن کے معصوم بچے ان کی گود میں ہی دم توڑ گئے۔ کچھ ایسے بھی تھے کہ پورا کا پورا کنبہ کسی ملک میں پناہ کی تلاش میں نکلا اور ملکِ عدم جا پہنچا۔ کبھی کسی ساحل پر روکے گئے، تو کبھی زمین پر کھنچی نادیدہ سرحدوں میں محصور کر دیے گئے۔ مجموعی لحاظ سے یورپ میں پناہ کی درخواست دینے والوں کی تعداد لاکھوں میں رہی اور لاکھوں افراد اپنی زندگی داؤ پر لگا کر وہاں پہنچے۔
یورپی اتحاد ( یونین) کے اپنے بھی بہت سے مسائل ہیں، جن میں یونان سمیت مشرقی یورپ کے معاشی طور پر کمزور ممالک بھی ہیں، جو یورپی اتحاد پر ایک اقتصادی بوجھ بنے ہوئے ہیں، مگر اس کے با وجود یورپ بہ ہر حال مشرقِ وسطیٰ جیسی خانہ جنگیوں سے محفوظ ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں تو خانہ جنگی سرحدوں کی قید سے آزاد دندناتی پھرتی ہے۔ انسانیت کو اپنے قدموں میں روندتی یہ خون آشام جنگیں کب رکیں گی، یہ بات کوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا۔ ان ممالک کے شہری ان جنگوں سے تنگ آکر اپنی بقا کی جنگ لڑنے جوق در جوق یورپ کے ساحلوں کا رخ کر تے رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ جنگ کی کوئی شکل بھی آسان نہیں ہوتی۔ اپنی بقا کی اس جنگ میں ان بے تیغ سپاہیوں نے اپنی گود کے لعل گنوائے ہیں۔
ابتدا میں ان تارکینِ وطن کے لیے یورپ کا طرزِ عمل غیر واضح و مبہم تھا۔ اس لیے ان بے گھروں کو معلوم نہیں تھا کہ آخر کس ملک میں انہیں پناہ مل سکے گی۔ ایسے میں جرمنی کی چانسلر انجیلا مرکل نے یورپی اتحاد کی مشترکہ حکمتِ عملی کی صدا بلند کی اور اہلِ مغرب کو انسان دوستی کا سبق یاد دلاتے ہوئے اعلان کیا کہ جرمنی اپنے ملک میں ایک بڑی تعداد میں ان تارکینِ وطن کو پناہ دے گا۔ ہر چند کے مرکل کے اس طرزِ عمل پر تنقید بھی ہوئی، مگر بہ ہرحال مرکل کی محنت کسی حد تک رنگ لائی، اور یورپی اتحاد میں کچھ اور ممالک نے بھی ہامی بھرلی۔
مرکل کے جرمنی نے گزشتہ برس کے اختتام تک مجموعی طور پر سے 11 لاکھ افراد کو پناہ دی۔ دیگر ممالک نے بھی اس کارِ خیر میں کچھ نہ کچھ حصہ ڈالنے پر رضامندی تو ظاہر کی،جن میں برطانیہ اور سنا تھا کہ امریکا بھی شامل ہے، مگر کچھ ممالک نے صاف انکار کردیا کہ وہ کسی غیر ملکی کو پناہ نہیں دیں گے اور اپنی معیشت پر کوئی بوجھ برداشت نہیں کریں گے۔ ان ممالک میں مشرقی یورپ اور بلقان کی وہ ریاستیں سرفہرست تھیں، جو کبھی صدیوں سلطنت عثمانیہ کے زیرنگیں اسلام اور مسلمانوں کا شان دار عروج دیکھ چکی تھیں۔ اس لیے اسلام اور مسلمانوں سے خوف زدہ ان یورپی ممالک کا انکار تو کسی درجے معقول تھا، تاہم اسی دوران شام کے ہمسایہ ملک اسرائیل نے بھی انکار کی اس گنگا میں ہاتھ دھونے کا سوچا اور اعلان کر دیا کہ اسرائیل کسی کو پناہ نہیں دے گا۔ تاریخ کے آئینے سے منہ چراتے اسرائیلی وزیر اعظم نے یہ بیان تو دے دیا، مگر دنیا جانتی ہے کہ اسی قوم نے ماضی میں ایسی ہی پناہ گزینی کے لیے ملکو ں ملکوں خاک چھانی تھے، مگر اب اسی قوم نے طے کیا تھا کہ اپنی سرحد کو خاردار تاروں سے محفوظ کیا جائے گا۔
ویسے بھی اسرائیل ان عراقیوں، شامیوں اور افغانوں کو پناہ کیوں دے گا، جب کہ اس نے خود اپنی ساحلی پٹی پر دنیا کا سب سے بڑا قید خانہ تعمیر کر رکھا ہے، جیسے ہم غزہ کے نام سے جانتے ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے غزہ کے محاصرے کا بنیادی مقصد اس پٹی کو خالی کرانا اور اس کے باشندوں کو دربدر کرنا ہے، کیوں کہ اس کے باشندے اس وقت فلسطینی تحریک مزاحمت کی مضبوط کڑی ہیں۔
حال ہی میں اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ سامنے آئی ہے، جس کے مطابق 20 لاکھ نفوس پر مشتمل یہ قید خانہ اب نا قابلِ رہایش ہو جا رہا ہے۔ ایک تو ویسے ہی غزہ میں پینے کے پانی کی قلت تھی، یعنی غزہ میں موجود 90 فیصد پانی نہ پینے کے قابل ہے نہ ہی نہانے اور برتن کپڑے دھونے کے۔ باقیجو 10 فیصد پینے کا پانی بچا ہے، وہ بھی پنجہ یہود میں ہے۔ پانی اہم اور بنیادی ضرورت ہے، جس کے بغیر زندگی ممکن نہیں ہوتی۔ اسرائیل ان غریب اہل غزہ کا پانی خود استعمال کر رہا ہے، تاکہ غزہ میں پینے کے پانی کی ایک ایک بوند خشک ہو جائے۔
خیر پانی تو ایک طرف پچھلی جنگ میں تاک تاک کر غزہ کے اسکول، اسپتال اور پل برباد کیے گئے۔ اسرائیل کا یہ اقدام کوئی نادانستی نہیں تھا، بلکہ ایک منصوبے کے تحت غزہ کو تباہ و برباد کیا گی اور کیا جا رہا ہے، تاکہ جلد از جلد یہ بستی ناقابلِ رہایش ہو جائے اور یہاں کی آبادی کے پاس نقل مکانی کے علاوہ چارہ نہ ہو۔ 2014ء کی جنگ میں 45 اسپتال تباہ کردیے گئے۔ غزہ اتنا بڑا شہر تو ہے نہیں کہ ہزاروں اسپتال ہوں۔ کل 60 اسپتال تھے، جن میں سے 45 توڑ تاڑ کے برابر کردیے، جب کہ اس کے علاوہ چھوٹے طبی مراکز الگ پھونک ڈالے۔ سڑکیں، پل، پانی کے ذخائر اور بجلی کی ترسیل کی کمپنی سب کو حملے کر کے برباد کردیا گیا۔ نہ جان مال کی ضمانت رہی نہ رہنے سہنے کی سہولت۔ کاروبار سارے چوپٹ ہوئے اور ہمہ وقت دشمن کا خوف ناگ کی پھنکار کی طرح سامنے ہے۔ اگر قید خانہ بھی کہو تو دنیا کا بد ترین قید خانہ ہوگا۔ یہ ساری کوششیں اس لیے کی جارہی ہیں کہ غزہ کی بستی انسانوں سے خالی ہو جائے اور یہاں کی آبادی کومجبوراً نقل مکانی کر نی پڑے، جو آخر کو ہونا ہی ہے۔
بھلا کب تک کوئی آبادی ان حالات میں جی سکتی ہے،جب کہ حالات دن بہ دن خراب سے خراب تر کیے جارہے ہوں۔شہر کی 25 فیصد آبادی پہلے ہی اقوامِ متحدہ کے مراکز میں رہتی ہے، کیوں کہ ان کے آشیانے اسرائیل اُجاڑ چکا ہے۔ باقی بھی سکون سے گھروں میں نہیں رہ رہے۔ تجارت پر پہرے ہیں، معیشت تباہ تو زراعت برباد ہے۔ جب کہ ماہی گیری کی صنعت خطرے کی باریک لکیر پر لڑکھڑا رہی ہے۔ یعنی مستقبل میں جینے کے اثار معدوم ہوئے جاتے ہیں۔ اب یہ 20 لاکھ کی آبادی جائے تو کہاں جائے ؟ کہے تو کس سے کہے؟ مغربی کنارے جانے کے لیے اسرائیل پار کرنا پڑتا ہے، جو غزہ میں رہنے سے زیادہ مشکل ہے۔ پڑوسی اسلامی ملک مصر نے شاید اسی بڑی نقل مکانی کو بھانپ کر پہلے ہی اپنی سرحدوں پر کیل کنڈے مضبوط کر لیے ہیں۔ اگلے چند برسوں میں سر اٹھانے والا یہ مسئلہ کیسے حل کیا جائے گا اور یہ آبادی کہاں کھپائی جائے گی ؟ ایسا سوال ہے کہ جس کے جواب کی طلب روز بہ روز بڑھتی جا رہی ہے۔ دنیا کا یہی خیال ہے کہ اہل غزہ بھی شامیوں اور عراقیوں کی طرح دربدر خاک چھانتے پھریں گے۔