ؓحضرت عائشہ صدیقہ
آپ ؓ کی ذاتِ اقدس میں مسلم خواتین کے لیے بہترین نمونہ موجود ہے
کلیم چغتائی
حضرت ابو بکر بن عمر ؒ کو علم کے اس درجے پر پہنچانے میں ان کی خالہ عمرہ بنت عبدالرحمن ؓ کا بڑا کردار تھا ، جو حضرت عائشہ ؓ کی شاگرد تھیں ۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ نے حضرت ابو بکر بن عمر ؓ کو ہدایت کی کہ وہ اپنی خالہ عمرہ ؓ کے ذریعے حضرت عائشہ ؓ کی تمام روایتیں تحریری صورت میں خلیفہ کے پاس ارسال کر دیں ۔
حضرت عائشہ ؓ نہ صرف حدیث روایت کرتی تھیں بلکہ اس کی تشریح و توضیح بھی فرماتی تھیں ۔ آپ ؓ کا شمار فقہا میں ہوتا ہے ، اکثر لوگ آپ ؓ سے مسئلے پوچھنے یا فتویٰ حاصل کرنے کے لیے آیا کرتے تھے ۔ آپ ؓ کو اگر کسی ذریعے سے حدیث ملتی تھی تو اس کے بارے میں سخت چھان بین کرنے کے بعد ہی اسے روایت کرتی تھیں ۔ اگر کوئی فرد ایسے مسئلے پر سوال کرتا جس کے بارے میں کسی اور سے حدیث روایت ہوئی ہو تو آپ ؓ اس فرد کو متعلقہ راوی کے پاس بھیج دیتی تھیں، مثلاً کسی نے موزوں پر مسح کا مسئلہ دریافت کیا ، آپ ؓ نے فرمایا:’’ حضرت علی ؓ کے پاس جائو وہ سفر میں آں حضرت ,ﷺ کے ساتھ رہتے تھے ۔ ‘‘
آپ ؓ نے بہت سے مسائل کی تصحیح فرمائی ، مثلاً ایک صحابی ؓ نے فرمایا کہ حضور ﷺ نے چار عمرے کیے جن میں سے ایک رجب میں ادا کیا ۔ حضرت عائشہ ؓ نے سنا تو ان صحابی ؓ کے لیے دعائے رحمت کر کے فرمایا’’ رجب میں حضور اکرم ﷺ نے کوئی عمرہ ادا نہیں فرمایا ۔ ‘‘ آپ ؓ نے فجر کی نماز میں صرف دو رکعت فرض رکھنے کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ فجر کی رکعتوں میں طویل قرأت کی جاتی ہے ۔ اسی طرح آپ ؓ نے وضاحت کی کہ حضور اکرم ﷺ نفل نمازیں بیٹھ کر اس وقت پڑھنے لگے تھے جب آپ ﷺ بہت کمزور ہو گئے تھے ۔
دور اور نزدیک سے لوگ علم حاص کرنے آپ ؓ کے پاس آتے ۔ آپ ہجرے میں اوٹ میں بیٹھ جاتیں اور لوگ مسجد میں جمع ہو جاتے ۔ سوالات کرتے ، آپ ؓ جوابات مرحمت فرماتیں ۔ کبھی کوئی سلسلۂ بحث چھڑ جاتا ، کبھی خود مسئلۂ بیان فرماتیں ۔ آپؓ اپنے شاگردوں کی زبان ، طرز ادائیگی اور تلفظ کی کڑی نگرانی کرتی تھیں ۔ حج کے موقع پر جہاں آپ ؓ کا خیمہ نصب ہوتا ، لوگ آ کر آپ ؓ سے مسائل پوچھتے ۔ اگر کوئی سوال پوچھتے ہوئے شرم محسوس کرتا تو اس کو حوصلہ دلاتیں اور کہتیں کہ میں تمہاری ماں ہوں ۔
حضرت عائشہ ؓ کے خاص شاگردوں میں آپؓ کے بھانجے عروہ بن زبیر ؓ قابل ذکر ہیں ۔ مشہور تابعی امام زہری ؒ حضرت عروہ ؒ کے شاگرد ہیں ۔ ان کے علاوہ قاسم بن محمد ؓ(بھتیجے) بڑے ہو کر مدینہ کے فقیہ کہلائے ۔ مسروق کوفی ؒ کی پرورش حضرت عائشہ ؓ نے فرمائی ۔ آپ ؓ فقہائے عراق میں شمار ہوتے ہیں ۔ خواتین میں اسد بن زرارہ ؓ کی پوتی عمرہ بنت عبدالرحمن ؓنمایاں ہیں ، امام بخاری ؒ کے مطابق لوگ اپنے مراسلے ، خطوط اور تحائف انہی کے ذریعے حضرت عائشہ ؓ تک پہنچاتے تھے ۔ آپؓ کے شاگردوں کی تعداد دو سو کے قریب ہے ۔
حضرت عائشہ ؓ کے دبستان سے نہ صرف لوگوں کو تعلیم دی جاتی تھی بلکہ یہ وہ تربیت گاہ تھی جہاں انسانوں کے اخلاق بھی سنوارے جاتے تھے ۔ آپؓ کی حیثیت ایک مشفق مربی کی تھی ،جو تعلیم دینے میں تو نرم خوئی اور شفقت سے کام لیتا ہے لیکن اس تعلیم پر عمل نہ ہونے کی صورت میں سخت گیری سے گریز نہیں کرتا ۔
مدینہ منورہ میں بچے پیدا ہوتے تو آپ ؓ کی خدمت میں لائے جاتے ۔ ایک بار ایک نو زائیدہ بچہ آپؓ کے پاس لایا گیا ، اس ک سر کے نیچے لوہے کا استرا نظر آیا ۔ دریافت کیا’’ یہ کیا ہے ؟‘‘ لوگوں نے بتایا ،’’ اس کی وجہ سے بھوت بھاگ جاتے ہیں ۔ ‘‘ آپ ؓ نے استرا اٹھا کر پھینک دیا اور فرمایا: حضور اکرم ﷺ نے شگون سے منع فرمایا ہے۔ ایک بار ایک شخص نے آ کر کہا، ’’ بعض لوگ ایک رات میں قرآن شریف دو دو بار ختم کر ڈالتے ہیں۔‘‘ آپؓ نے ارشاد فرمایا۔’’ ان کا پڑھنا اور نہ پڑھنا دونوں برابر ہیں، آں حضرت ﷺ تمام رات نماز میں کھڑے رہتے تھے لیکن بقرہ ، آل عمران اور نساء سے آگے نہ بڑھتے تھے ، جب کسی بشارت کی آیت پر پہنچتے تو اللہ سے دعا مانگتے اور جب کسی ایسی آیت پر پہنچتے جس میں عذاب الٰہی سے ڈرایا گیا ہے تو پناہ مانگتے۔‘‘
جاہلیت کے دور میں عرب کا کیا حال تھا ، اس عہد کی رسوم کیا تھیں اور قبائل کا شجرۂ نسب کیا تھا ، ان تمام امور میں خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق ؓ کا علم بہت وسیع تھا ۔ حضرت عائشہ ؓ ان ہی کی صاحبزادی تھیں ۔ آپ ؓ نے بھی والد گرامی ؓ کے اس علم سے بھر پور استفادہ فرمایا۔ حضرت عروہ ؓ فرماتے ہیں ، ’’ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے زیادہ کسی کو عرب کی تاریخ کا ماہر نہ پایا ۔ ‘‘ حضرت عائشہ ؓ کی بے مثال قوتِ حافظہ کا کمال تھا کہ عرب کی رسوم جاہلیت ، اس دور کے معاشرتی حالات ، شادی کے طریقے، طلاق کی صورتیں ، پھر اسلام آنے کے بعد کے حالات تاریخی ترتیب سے حضرت عائشہ ؓ کے ذریعے دیگر انسانواں تک پہنچے اور تاریخ کے صفحات پر محفوظ ہو گئے۔
حضرت عائشہ ؓ نہایت فصیح اللسان تھیں اور آپؓ کا اندازِ گفتگو بہترین ، شیریں اور متاثر کن تھا ۔ آپ ؓ کے شاگرد حضرت موسیٰ بن طلحہ ؓ کا کہنا ہے کہ میں نے حضرت عائشہ ؓ سے زیادہ فصیح اللسان نہیں دیکھا۔ آپؓ کو اللہ نے تقریر و خطابت کی بہت عمدہ صلاحیت بھی بخشی تھی ۔ آپ ؓ کی آواز بلند تھی اور سننے والے اس آواز کے جلال سے مرعوب ہو جاتے تھے ۔ حضرت عائشہ ؓ کا شعری ذوق بھی اعلیٰ تھا ۔ حضرت حسان بن ثابت ؓ صحابیٔ رسول اللہ ﷺ تھے ۔ آپؓ بہت اچھے شاعر تھے اکثر آپ ؓ حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر اشعار سناتے ۔ حضرت عائشہ ؓ کو بہت سے اشعار یاد تھے اور وہ موقع محل کی مناسبت سے شعر پڑھنے میں مہارت رکھتی تھیں ۔ آپؓ کو طب کا بھی علم تھا ۔ جب مختلف علاقوں سے اطبأ آ کر مدینہ منورہ میں ٹھہرتے تو وہ جن بیماریوں کے علاج بتاتے انہیں حضرت عائشہ ؓ یاد کر لیتیں ۔
حضرت عائشہ ؓ نے رسول کریم ﷺ کی زوجۂ محترمہ کی حیثیت سے تقریباً نو برس آپ ﷺ کی رفاقت میں بسر کیے ۔ یہ وہ عہد زیریں ہے جس میں حضرت عائشہ ؓ نے اللہ کے حبیب ﷺ سے علم و عرفان کی ایک دنیا حاصل کی اور یہ تائید ایزدی ہی تھی کہ نبی کریم ﷺ کے معمولات ، اخلاق ، عادات اور زندگی کے بہت سے شعبوں میں آپ ﷺ کی تعلیمات، امت مسلمہ تک حضرت عائشہ ؓ کی ذات گرامی کے ذریعے پہنچیں ۔ اللہ نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کو بے پناہ فہم و فراست اور قیمتی معلومات اور احکام کو عوام الناس تک پہنچانے کا باعث بنی۔
غور کیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے جہاں دیگر وجوہ کی بنا پر مختلف سن و سال اور مختلف صلاحیتیں رکھنے والی خواتین سے عقد فرمایا وہیں ، حضرت عائشہ ؓ کو ان کی غیر معمولی ذکاوت اور مثالی حافظے کی بنا پر اپنی زوجیت میں لینے کا شرف عطا فرمایا ۔ ایک شخص کی نجی زندگی سے اگر کوئی پوری طرح واقف ہو سکتا ہے ، تو وہ اس کی بیوی ہو سکتی ہے ۔ حضرت عائشہ ؓ نے حضور اکرم ﷺ کی رفاقت میں آپ ﷺ کے ایک ایک عمل کو دیکھا ، اسے سمجھا ، یاد رکھا اور دوسروں تک پہنچایا ۔ فی الواقع رب العالمین نے حضور عائشہ ؓ کی صورت میں امت مسلمہ پر احسانِ عظیم فرمایا ہے جن کے ذریعے نبی کریم ﷺ کی زندگی کا ہر گوشہ امت مسلمہ پر آشکار ہوا اور زندگی کے ہر شعبے میں امت مسلمہ کے لیے واضح طرزِ عمل اور ہدایت میسر آ گئی ۔