جویریہ اعظم
نماز کے لیے ساڑھے پانچ بجے کا لگایا الارم نجانے کب سے بند ہو چکا تھا لیکن جاوید صاحب اب تک بیدار نہ ہوئے تھے ۔ رات ایک شادی میں شرکت کی تھی لہٰذا دیر سے گھر پہنچے ۔ آخر جب کھڑکی سے داخل ہوتی سورج کی کرنیں ان کی آنکھوں پر پڑیں تو وہ بڑبڑا کر اٹھ بیٹھے ۔گھڑی ساڑھے سات بجا رہی تھی ۔آٹھ بجے انہیں اپنے آفس پہنچنا تھا ۔ دھڑا دھڑا باتھ روم کی جانب دوڑ لگائی ۔ پندرہ منٹ میں تیار ہوتے بکھرے بالوں کو ہاتھ سے ہی سمیٹتے وہ اپنی گاڑی تک پہنچے ۔ سارا راستہ نفس اور ضمیر کے درمیان جنگ ہوتی رہی کہ دیر سے پہنچنے پر باس کو کیا جواب دینا ہے ۔ آخر فتح نفس کی ہوئی کہ باس کی ڈانٹ برداشت نہیں ہوتی ۔لہٰذا گاڑی کا ٹائر پنکچر تھا ۔ دکانیں بند تھیں ۔ جب تک صحیح کروایا تو روڈ پر ٹریفک جام تھا لہٰذا دیر ہو گئی ۔ ضمیر کو جاوید صاحب نے یہ کہہ کر مطمئن کیا کہ میں تو جلدی اُٹھنا چاہتا تھا لیکن…
ساڑھے آٹھ ہو رہے تھے کہ آفس پہنچے ۔ اتنے مضبوط دلائل ہونے کے باوجود باس کے چند کڑوے کیسلے جملے سننے پڑے ۔ ناشہ نہ کرنے کی وجہ سے طبعیت بوجھل ہو رہی تھی ۔ بے دلی سے کام کرنے لگے ۔ ضمیر بار بار امانت میں خیانت کا احساس دلا رہا تھا ۔ ضمیر کی آواز ’’ لیکن‘‘ تلے دب گئی ۔ دس بجے کینٹین چل پڑے ۔د وستوں کے ساتھ شغل میں مصروف ہو گئے ۔ واپس آ کر کام میں لگ گئے ، نماز ظہر کا وقفہ ہوا تو نماز کے لیے اٹھنے لگے کہ ٹی وی پہ چلنے والے میچ نے قدم روک لیے اس کے سامنے بیٹھ گئے تو وقت کا احساس ہی نہ ہوا ۔ جب وقفہ اختتام کو پہنچا تو ایک ’’ آہ‘‘ لیکن، کی صدا بلند ہوئی ، عصر کے وقت آفس کا وقت ختم ہوا تو میچ بے حد دلچسپ مرحلے میں داخل ہو چکا تھا ، جاوید صاحب کے دوستوں کے درمیان شرط لگ گئی ۔ میچ ختم ہوا تو خالد صاحب نے وعدہ کے مطابق کھانے کی دعوت دے ڈالی ۔رات گئے تک جاوید صاحب دوستوں کی محفل میں خوش گپیوں میں مصروف رہے ۔ رات بارہ بجے جب گھر کی جانب رواں دواں تھے تو تھکن سے برا حال تھا ۔ ضمیر پکار رہا تھا کہ آج کا دن کتنا بیکار گزرا ، اب عشاء تو پڑھ لیںلیکن نفس آرام کا خواہش مند تھا ، گھر پہنچنے تک ضمیر کی آواز کہیں دور رہ گئی اور نفس پھر کامیاب ہوا ۔
رات کو جاوید صاحب کی روزنامچہ لکھ کر سونے کی عادت تھی چنانچہ ڈائری لے کر بیٹھ گئے ۔’’ میں تو اپنا دن بہت اچھا گزارنا چاہتا تھا ۔ ساری نمازیں پڑھنا چاہتا تھا لیکن…’’ زندگی نے اس جملے کو مکمل کرنے کی بھی مہلت نہ دی کہ یہ ’’لیکن‘‘ اکثرنامکمل رہ جاتا ہے اور وقت مکمل ہو جاتا ہے
زندگی سے اتنی مہلت کی بھی کب امید تھی
اپنی پیدائش میں اپنی موت کی تمہیدتھی