صرف قانون سازی یا عمل درآمد بھی

238

عبدالسلام
18 ویں آئینی ترمیم کے بعد وزارت محنت کو صوبائی اختیار میں دے دیا گیا۔ جس کے بعد تمام صوبوں نے صوبائی سطح پر لیبر قوانین تشکیل دیے۔ ان میں سے اکثر صرف نام کی تبدیلی کے علاوہ تھوڑی بہت قانونی لفظوں کی تبدیلی کے ساتھ صرف نقل کردیے گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے لیبر قوانین میں کچھ بہتری پیدا ہونے کے بجائے ابتری پیدا ہوئی ہے۔ جس سے مزدور تحریک مزید مشکلات اور دشواریوں سے دوچار ہوئی ہے۔
یہی کچھ صورت حال صوبہ سندھ میں بھی ہوئی ہے جہاں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور جن کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے سب سے زیادہ لیبر قوانین سندھ اسمبلی سے منظور کروائے اور پیپلز پارٹی مزدور دوست پارٹی ہے ہم اس بات کو تو تسلیم کرتے ہیں کہ سندھ اسمبلی میں سب سے زیادہ لیبر قوانین پاس ہوئے لیکن کیا پیپلز پارٹی کے لوگ بھی تسلیم کریں گے کہ اسمبلی ممبران نے بغیر پڑھے جلد بازی میں یہ سارے قوانین بنائے جو یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ نقل کے لیے بھی عقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ اسمبلی کے کسی ممبر نے عقل کا استعمال تو دور کی بات اس بل کو پڑھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ جس کی وجہ سے آج محنت کش بری طرح پریشان ہے اور دربدر کی ٹھوکریں کھا رہا ہے۔
یوں تو سندھ اسمبلی نے جلد بازی میں تقریباً 11 لیبر قوانین پاس کیے ہیں۔ جن میں شرائط ملازمت کا قانون 2015، صنعتی تعلقات کا قانون 2013، کمپنی پروفٹ ایکٹ 2015، فیکٹری ایکٹ 2015 اور اسی طرح کے دیگر قوانین بھی وڈیرا شاہی سندھ اسمبلی نے منظور کیے ہیں۔ ہم نے ان کا تقابلی مطالعہ کیا تو یہ بات کھل کر عیاں ہوگئی کہ قوانین میں سب سے بڑی تبدیلی جو رونما ہوئی ہیں وہ صرف ٹائٹل (نام) کی تبدیلی واضع ہوئی، ہر قانون کے ٹائٹل کے ساتھ لفظ سندھ کا اضافہ کیا گیا ہے اور سن درج کردیا گیا ہے۔ یہاں موقع نہیں کہ ہر قانون کا پوسٹ مارٹم کرکے تقابلی جائزہ پیش کیا جائے ورنہ ہم یہ بات ثابت کرسکتے ہیں کہ مکمل طور پر یہ قانون پہلے سے بھی زیادہ ناقص بنائے گئے ہیں اور صوبائی وزیر قانون، سیکرٹری قانون، وزیر محنت اور سیکرٹری محنت نے کسی دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اگر ایسا کیا جاتا تو یہ قوانین بہتر طور پر بنائے جاسکتے تھے اور پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت سندھ کے محنت کشوں کے دل جیت سکتی تھی لیکن صرف مزدوروں کا نام لینے والوں کو اس کی کوئی فکر نہیں کہ غریب محنت کش کو کن دشواریوں کا سامنا ہے۔
ہم یہاں یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ لولے لنگڑے قوانین بنانے سے مزدوروں کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ جب تک ان پر عمل درآمد نہیں کروایا جاتا۔کیا پیپلز پارٹی کی حکومت یہ بتا سکتی ہے کہ کم از کم تنخواہ پر کتنا عمل کروایا گیا اور صوبہ میں اس پر کتنے فی صد عمل ہورہا ہے۔ کنٹریکٹ ملازمین جن کو قانون کے تحت کہا گیا ہے کہ وہ مستقل ملازمین کے برابر سہولیات لینے کا حق رکھتے ہیں۔ جس کا سپریم کورٹ بھی فیصلہ دے چکی ہے۔ کتنے فی صد پر عمل کیا جارہا ہے۔ سوشل سیکورٹی میں قانون کے مطابق علاج و معالجے اور ادویات کے حصول میں محنت کشوں کو کتنی سہولیات حاصل ہیں۔ قانون بنانے کے باوجود صنعت کار کتنے فی صد لوگوں کو بھرتی لیٹر جاری کررہے ہیں۔ بونس کی ادائیگی میں کتنے فی صد قانون کے مطابق عمل درآمد ہورہا ہے۔ اسی طرح سے گروپ انشورنس، کمپنی کارڈ، اوور ٹائم، اوقات کار پر کتنے فی صد عمل ہورہا ہے۔ اگر حکومت سندھ قوانین بنا کر یہ کہنا چاہتی ہے کہ ہم نے مزدوروں کی خدمت کردی تو یہ محنت کش اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ سوائے دھوکا دینے کے کچھ بھی نہیں کیا۔ صرف قانون بنانے سے محنت کشوں کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ اگر سندھ حکومت محنت کشوں سے مخلص ہے تو اُسے اپنے ہی بنائے گئے قوانین پر عمل درآمد بھی کروانا چاہیے۔ کیوں کہ یہ حکومت ہی کہ ذمے داری ہے اور اس کے ہی زیر انتظام تمام محکمے ہیں۔ جہاں ان کے چہیتے جیالے عیاشیاں کررہے ہیں اور اپنی ذمے داریوں سے اجتناب برتنے کا بھرپور کمیشن وصول کررہے ہیں۔ قانون بنانے کا کوئی فائدہ نہیں جب تک کہ اس پر عمل درآمد نہ ہو، صوبے کے لاکھوں محنت کش اپنے قانونی اور جائز حقوق سے تاحال محروم ہیں، کیا یہی خدمت کی ہے۔ آپ پہلے سوچیں پھر دعویٰ کریں ورنہ صدائے مزدور تو ہے کہ
قانون تو بنادیا شب بھر میں اقتدار کی حّوس والوں نے
من اپنا پرانا پاپی تھا برسوں میں بھی عمل کروا نہ سکا
آخر میں ہم سندھ کے محنت کشوں سے کہیں گے کہ وہ بھی جائزہ لیں کہ سندھ حکومت نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے اور کتنے محنت کشوں سے محبت کرنے والے ہیں۔ اگر انہوں نے واقعی ہی خدمات کی ہیں تو تسلیم کرلیا جائے بصورت دیگر 2018 کے الیکشن میں اپنی پوری قوت کے ساتھ انہیں مسترد کردیا جائے۔