پاکستانی روپے کی قدر کے تعین کا مسئلہ

zc_Rizwan-AnsariPakistani-rupee-worth-of-issue-issue
5 جولائی کی صبح سے لے کر دوپہر تک پاکستان میں روپے کی قدر 105 روپے ڈالر سے کم ہو کر گرتے ہوئے 108.50 روپے فی ڈالر تک جا پہنچی۔ یہ ایک ہی دن میں گزشتہ 9 سال میں روپے کی قدر میں سب سے بڑی گراوٹ تھی جو 3.1 فی صد تھی اس سے فارن ایکسچینج مارکیٹ میں شدید بے یقینی پھیل گئی جب کہ سٹے بازوں نے موقع سے فائدہ اٹھا کر کروڑوں روپے کمائے۔ وفاقی وزیر خزانہ نے اس صورت حال کا فوری نوٹس لیا اور اگلے روز صبح صبح اسلام آباد میں تمام بینکوں کے چیف ایگزیکٹو آفیسرز اور صدور کے ساتھ میٹنگ کی جس کے بعد صورت حال قابو میں آگئی اور ڈالر دوبارہ 105.50 روپے پر آگیا۔
اسحاق ڈار نے اس صورت حال کا ذمے دار نگراں گورنر اسٹیٹ بینک کو ٹھیرایا جنہوں نے روپے کی گرتی ہوئی قدر کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ ساتھ ساتھ حکومت نے طارق باجوہ کو اسٹیٹ بینک کا گورنر تعینات کردیا جو ان کے دست راست ہیں جنہیں یہ کام بھی سونپ دیا گیا کہ وہ دس دن میں ایک انکوائری رپورٹ تیار کریں جس میں اس صورت حال کے ذمے داروں کا تعین کیا جاسکے۔ کیوں کہ صرف ایک روز میں روپے کی قدر کم ہونے سے ملک کو 230 ارب روپے کا نقصان ہوا۔
بین الاقوامی مارکیٹ میں ملکی کرنسی کی قدر اس ملک کی معیشت کے لیے بے انتہا اہمیت رکھتی ہے، ملک میں پیداوار اور سرمایہ کاری، قیمتوں کا تعین اور برآمدات میں کرنسی کی قدر کلیدی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لییمعیشت کی دنیا میں اسے دو طرح دیکھا جاتا ہے ایک ظاہری قدر ہے جو اس وقت تقریباً 105 روپے فی ڈالر ہے اور دوسری حقیقی قدر ہے جس میں روپے کی قوت خرید کو دنیا کی اہمیت والی کرنسیوں کی قوت خرید سے موازنہ کرکے تعین کیا جاتا ہے اسے حقیقی قدر (red & change rate) کہا جاتا ہے۔ حقیقی یا اصلی قدر کے تخمینہ لگانے کے لیے علم معاشیات میں مختلف طریقہ کار تجویز کیے گئے ہیں تا کہ اس کا صحیح صحیح حساب لگایا جاسکے کہ روزمرہ کے لین دین میں امریکی ڈالر کے حساب سے پاکستانی کرنسی کی جو قدر ہے وہ کم ہے یا زیادہ ہے یا متوازن ہے۔
اسحاق ڈار صاحب نے فوری ایکشن لے کر صورت حال کو سنبھال تو لیا ہے مگر یہ مرض میں عارضی افاقہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی کرنسی موجودہ معاشی صورت حال میں سخت دبائو کا شکار ہے۔ زرمبادلہ کا حصول کم سے کم ہوتا جارہا ہے یعنی برآمدات کم ہورہی ہیں۔ بیرون ملک پاکستانیوں سے بھجوانے والی ترسیلات زر بھی کم ہورہی ہیں۔ اسی طرح بیرونی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ نہیں ہورہا ہے جب کہ درآمدات 53 ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں۔ بیرونی قرضوں پر سود 5 ارب ڈالر اور بین الاقوامی کمپنیوں کی جانب سے اپنے اپنے ملکوں کو منافع کی ترسیل 2 ارب ڈالر ہے۔ دوسرے الفاظ میں ڈالر کا حصول کم اور بیرون ملک ترسیل بہت زیادہ ہے اسی کو کرنٹ اکائونٹ خسارہ کہا جاتا ہے جو سال 2016-17 میں 12 ارب ڈالر تک آگیا ہے۔
یہ صورت حال کرنسی کی قدر میں کمی کا تقاضا کرتی ہے۔ برآمدکنندگان بھی یہی مطالبہ کررہے ہیں کہ روپے کی قدر میں کمی کی جائے تا کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں پاکستانی برآمدات کی قیمت کم ہوجائے اور اس طرح برآمدات میں اضافہ ہوسکے۔ اسی طرح آئی ایم ایف نے بھی یہی سفارش کی ہے کہ روپے کی قدر میں کمی کی جائے۔ فارن کرنسی مارکیٹ کے کھلاڑی اور بین الاقوامی بینک بھی اُمید لگائے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت کرنسی کی قدر میں کمی ہوسکتی ہے اور اس وقت بھی اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 107 روپے جاری ہے جب کہ انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت 105 روپے ہے۔
پاکستان میں وزارت خزانہ اس وقت سخت مشکل کا شکار ہے اگر وہ آئی ایم ایف اور برآمدکنندگان کے کہنے پر روپے کی قدر میں کمی کردیتے ہیں تو ہوسکتا ہے کہ برآمدات میں تھوڑا بہت اضافہ ہوجائے مگر دوسری طرف بیرونی قرضوں کی مالیت پاکستانی کرنسی میں ایک دم بڑھ جائے گی۔ دوسری طرف درآمدات مہنگی ہوجائیں گی، اس طرح وہ تمام اشیا جو بیرونی ملکوں سے درآمد کی جاتی ہیں ان کی قیمت میں اضافے سے مہنگائی میں اضافہ ہوجائے گا اور اس طرح پاکستان کی کمزور معیشت عدم استحکام کا شکار ہوجائے گی۔ اسی کے ساتھ ساتھ حکومت جو پاناما کیس کے باعث شدید الزامات کی زد میں ہے روپے کی قدر میں کمی کے باعث الزامات کی بوچھاڑ میں اضافہ ہوجائے گا اور سیاسی عدم استحکام کے ساتھ معاشی عدم استحکام بھی سامنے آجائے گا۔
لیکن اگر شریف خاندان حب الوطنی اور پاکستان سے خیر خواہی کے زبانی دعوے کرنے کے بجائے اپنی بیرون ملک رکھی ہوئی کچھ رقم پاکستان لے آئیں تو کرنٹ اکائونٹ خسارے کی مشکلات کم ہوجائیں گی اور یہ دوسرے دولت مند لوگوں کے لیے ایک مثال ہوگی مگر اس کے لیے ہمت اور جذبہ کی ضرورت ہے۔