میاں نواز شریف نے اپنا ریکارڈ قائم رکھا ہے اور تیسری بار بھی وہ حسبِ سابق اپنی میعاد پوری کرنے سے پہلے ایوان اقتدار سے رخصت ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔ یہ تاریخی فیصلہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ فیصلہ آنے پر اپوزیشن پارٹیاں جو ردّعمل ظاہر کررہی ہیں وہ بھی غیرمتوازن ہے۔ بھنگڑے ڈالنا اور مٹھائیاں تقسیم کرنا کوئی سنجیدہ کام نہیں۔ اس فیصلے پر اللہ کا شکر بھی ادا کرنا چاہیے اور خود کو محاسبے کے لیے پیش بھی کرنا چاہیے۔ محاسبہ سب کا ہوگا تو قانون وانصاف کے تقاضے پورے ہوں گے۔ میاں نواز شریف کے خاندان نے جو دولت سمیٹی ہے اسے واپس ملک میں لانے کا طریقہ کار بھی فوری طور پر طے ہونا چاہیے اور اسی کے مطابق ہر فرد کا معاملہ عدالت کے ذریعے اپنے منطقی انجام کو پہنچنا چاہیے۔ جو لوگ دفعہ 62، 63 پر پورے نہیں اترتے ان سب کے بارے میں یہ فیصلہ لاگو ہونا چاہیے۔ ان دفعات کے دستور سے خارج کرنے کا مطالبہ کرنے والے عناصر کا بھی کڑا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ جماعت اسلامی نے جب بھی انتخابی کاغذات کی اسکروٹنی کے موقعے پر دفعہ 62، 63 کا حوالہ دیا تو متعلقہ سرکاری افسران اور الیکن کمشنر نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا۔ دستور کی یہ بے حرمتی نہ ہوتی تو ملک اس خطرناک موڑ پر نہ پہنچتا۔ اب یہ فیصلہ آنے کے بعد کی صورت حال میں آئین کے مطابق معاملات کو آگے چلانا چاہیے۔ کوئی غیر آئینی کام ہر گز قوم کو قبول نہیں ہوگا۔ جمہوری اور پارلیمانی قواعد کے مطابق قومی اسمبلی سے عبوری وزیراعظم کا تقرر اور اگلے انتخابات کے لیے غیرجانب دار نگران حکومت کا تعین ضروری ہے۔ عبوری وزیراعظم کے طور پر اکثریتی پارٹی جسے بھی منتخب کرلے اسے سب پارٹیوں کو قبول کرلینا چاہیے۔ اگر میاں نواز شریف کی خالی کردہ سیٹ پر نون لیگ کے پروگرام کے مطابق میاں شہباز شریف ایم این اے منتخب ہوتے ہیں اور اکثریتی ووٹ سے وزیراعظم بنتے ہیں تو انہیں کام کا موقع ملنا چاہیے۔
ہمیں کسی شخصیت یا پارٹی سے ذاتی دشمنی یا محبت نہیں ہے۔ ہم اصولوں کی سیاست کے قائل ہیں۔ میاں برادران کی سرشت میں تمام حکمرانوں کی طرح خوشامدی ٹولوں کو اپنے گرد جمع کرنا کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اس مذموم عادت اور تعامل کو ساری قوم نے پوری طرح دیکھ لیا ہے۔ میاں صاحب کے قریبی ساتھی چودھری نثارعلی خاں نے فیصلہ آنے سے ایک دن قبل بلکہ چند گھنٹے پہلے پریس کانفرنس میں جو کچھ کہا وہ انتہائی چشم کشا ہے۔ وہ گھر کے بھیدی ہیں اور اس کے ساتھ اپنی ذاتی حیثیت، پس منظر اور اقتدار کے مراکز سے تعلقات کی بنیاد پر انہیں بخوبی اندازہ تھا کہ فیصلہ کیا آنے والا ہے۔ ان کے اپنے وزیراعظم کے مقابلے میں برادر خوردِ میاں شہباز شریف سے نسبتاً زیادہ قریبی تعلقات ہیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ چودھری نثار صاحب کی سنیارٹی کے پیش نظر ہما ان کے کندھے پر بیٹھتا ہے یا اقربا پروری کی مثال قائم رکھتے ہوئے سبکدوش ہونے والے وزیراعظم کے برادرخورد کی طرف پرواز کرتا ہے۔ بہرحال جو بھی ہو ہمیں اس سے کیا غرض۔ ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ترکی اور چین کے ساتھ قائم کردہ تعلقات میں کوئی رخنہ نہ آئے۔ ترقیاتی منصوبوں بشمول سی پیک کے لیے جو روڈ میپ بنے ہیں ان پر کم سے کم مدت میں عمل درآمد کیا جائے اور سب سے اہم یہ کہ احتساب کا عمل بکمال عدل وانصاف پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔
یہ بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ جو بھی نئی کابینہ بنے اس میں شامل تمام وزرا ومشیران کا اسی انداز میں حساب کتاب چیک کیا جائے جس انداز میں جے آئی ٹی کے ذریعے سبکدوش ہونے والے وزیراعظم صاحب کا معاملہ منطقی انجام تک پہنچایا گیا۔ اپوزیشن پارٹیوں میں بیٹھے ہوئے سیاست دان جو سابقہ ادوار میں حکومت میں رہے یا اپوزیشن بنچوں پر، سب کا احتساب ضروری ہے۔ آغاز ان سے ہونا چاہیے جو اقتدار کے مزے لوٹتے رہے۔ میاں نواز شریف اس فیصلے کے آنے پر نہایت پریشان نظر آئے۔ اپنے مشاورتی اجلاس میں اپنے ساتھیوں اور اتحادی پارٹیوں کی قیادت کے ساتھ بیٹھے ہوئے ان کی جو تصاویر آئی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ ملک کے سب سے طاقت ور سیاست دان کے اعصاب جواب دے گئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن صاحب بلاشبہ بہت خوش اور حوصلے میں تھے۔ ان کے مبینہ لطیفے پر وہ خود فرحت ومسرت کے ساتھ قہقہہ لگاتے ہوئے نظر آئے۔ کیمرے کی آنکھ بڑی ظالم ہے کہ اس نے میاں نواز شریف صاحب کے ہنسنے کی ناکام کوشش کو بالکل بے نقاب کردیا۔ میاں صاحب! حوصلہ رکھیں۔ اس طرح کے کارنامے سرانجام دینے کے بعد آخر ایک دن حساب تو دینا پڑتا ہے۔ بڑا دل کیجیے اور لوٹی ہوئی دولت واپس لا کر اچھی مثال قائم کیجیے۔ اس کے بعد آپ بھی حق بجانب ہوں گے کہ ہماری ہاں میں ہاں ملا کر یہ مطالبہ کریں کہ اس مثال کی پیروی کرتے ہوئے بیرون ملک دولت منتقل کرنے والے سب مگرمچھ دولت واپس لائیں۔ اگر ایسا نہ کریں تو قوم کا مطالبہ یہ ہے کہ ان کے پیٹ پھاڑ کر قوم کے خون پسینے کی کمائی وطن عزیز میں واپس لائی جائے۔
میاں نواز شریف صاحب کے وفادار وزرا اور ان کے یار غار حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب نے ان کا دفاع کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے جب بھی کسی موضوع پر گفتگو کی ہے ان کے لب ولہجے میں اعتماد بھی ہوتا ہے اور استدلال بھی مضبوط۔ کل سابق وزیراعظم کی کانفرنس سے نکلنے کے بعد جب وہ پریس کے سامنے آئے تو اپنے سارے دلائل کے باوجود محسوس ہورہا تھا کہ وہ انتہائی کمزور کیس کی ناکام وکالت کررہے ہیں۔ مولانا تو عالم دین ہیں۔ ان سے زیادہ کون جانتا ہے کہ ہمارا ورثہ اور پہچان وہ عظیم حکمران ہیں جنہیں آپؐ کی تربیت حاصل تھی اور جنہوں نے خلافت راشدہ کے ذریعے پوری دنیا کے لیے عدل وانصاف کا ایک مثالی نمونہ پیش کیا۔
غلط کام کا دفاع علمائے حق کو زیب نہیں دیتا۔ یہ ٹھیک ہے کہ وہ میاں نواز شریف کے ساتھ مرکزی حکومت میں شامل ہیں۔ ان کی حمایت بے شک کریں، مگر کرپشن ثابت ہوجانے پر جو فیصلہ عدلیہ نے سنایا ہے اسے تو متنازع نہ بنائیں۔
میاں شہباز شریف کے بارے میں ابھی تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ ان کے خلاف جو کیسز ہیں وہ کب کھلیں گے۔ چھوٹے میاں صاحب نے اپنے وزارت اعلیٰ پنجاب کے ادوار میں ترقیاتی کاموں کو ترجیح دی۔ اب اگر کچھ عرصے کے لیے وہ مرکزی حکومت میں آتے ہیں تو ملک کے تمام صوبے ان سے یہ توقع رکھیں گے کہ وہ بلاامتیاز سب صوبوں میں عوام کی سہولت کے لیے منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیں گے۔ اگر کسی صوبے میں ان کی حکومت نہیں ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پاکستان کا حصہ نہیں۔ تمام وفاقی اکائیوں کے ساتھ یکساں سلوک دستور پاکستان اور اسلامی اخلاقیات کا لازمی تقاضا ہے۔ فاٹا کے عوام کا دیرینہ مطالبہ کہ ان کی سرزمین بے آئین کو پاکستان میں مدغم کرکے وہاں کے عوام کو بنیادی حقوق دیے جائیں، میاں نواز شریف صاحب کی کمزوریوں کی وجہ سے ہنوز حل طلب ہے۔ فاٹا کے عوام اور حکومتی قائم کردہ سرتاج عزیز کمیٹی کے علاوہ ملک کی سیاسی جماعتوں کی اکثریت بھی اس کے حق میں فیصلہ دے چکی ہے۔ اب نئے آنے والے وزیراعظم کا یہ امتحان ہوگا کہ وہ ایک اقلیت کے سامنے جھک کر اپنی کمزوری کا اظہار کرتا ہے یا انصاف کا فیصلہ کرکے خود کو عزت واحترام کا مقام دیتا ہے۔ ہم نے جو کچھ لکھا، دردِ دل کے ساتھ لکھا۔ نہ کسی سے صلہ کی تمنا ہے، نہ مخالفت کا ڈر! غالب نے کیا خوب کہا تھا:
نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی