قائداعظم ٹرافی ٹیموں کے انتخاب کا طریقہ کار تبدیل

518
کراچی(اسٹاف رپورٹر)پاکستان کرکٹ بورڈ کے بورڈ آف گورنرز کے اجلاس میں پاکستان کے سب سے بڑے ڈومیسٹک ٹورنامنٹ قائد اعظم ٹرافی میں تبدیلیوں کی منظوری ملنے کے بعد اب ایونٹ میں ٹیموں کا انتخاب ڈرافٹ سسٹم کے ذریعے ہو گا۔ڈھائی کروڑ آبادی کے حامل سب سے بڑے ریجن کراچی کی جانب سے اختلاف اور اجلاس سے بائیکاٹ کے باوجود قائد اعظم ٹرافی کے 2017-18 کے سیزن میں ریجنل ٹیموں کا انتخاب ڈرافٹ سسٹم کے ذریعے ہو گا۔اس نئے ماڈل کے تحت ریجنل فرسٹ کلاس ٹیمیں روایتی انٹر ڈسٹرکٹ کرکٹ کے بجائے ڈرافٹ کے عمل کے ذریعے کھلاڑیوں کا انتخاب کریں گی۔ چیئرمین پی سی بی نے گزشتہ روز پریس کانفرنس میں اس نئے ماڈل کی منظوری کا اعلان کرتے ہوئے کہاکہ کراچی نے مخالفت کی لیکن ہم نے موقف اپنایا کہ سسٹم میں کرپشن اور اقرباپروری ہے اور اس میں تبدیلی کیلئے ڈرافٹ سسٹم اپنایا جائے گا۔پی سی بی کی جانب سے اس ماڈل اپنانے کی سب سے بڑی وجہ میرٹ کی بنیاد پر کھلاڑیوں کا انتخاب نہ ہونا ہے اور اس نئے نظام کی مدد سے ریجنل ٹیموں کے مابین مسابقت بڑھانے میں مدد ملے گی جنہیں قائد اعظم ٹرافی میں ڈپارٹمنٹس کے خلاف مقابلے میں ہمیشہ ہی مشکلات کا سامنا رہا ہے۔تاریخی طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ جب بھی ریجنل اور ڈپارٹمنٹ کی ٹیمیں مدمقابل آئیں تو بہتر مالی وسائل کی بدولت ڈپارٹمنٹ نے بہتر کھلاڑی میدان میں اتارے۔ابتدائی طور پر یہ مشورہ دیا گیا کہ ریجنل ٹیم کے 20 کھلاڑیوں کے اسکواڈ میں سے 12 کھلاڑیوں کو ڈرافٹ کے ذریعے منتخب کیا جائے گا جس پر لاہور ریجن نے اس کے الٹ8 کھلاڑیوں ڈرافٹ کے ذریعے منتخب کرنے کی تجویز پیش کی۔بالآخر حتمی فیصلہ یہ طے پایا کہ 8 کھلاڑی ڈرافٹ کے ذریعے منتخب کیے جائیں گے، 10 کھلاڑیوں کا انتخاب معمول کے مطابق ہو گا جبکہ انڈر19 ریجن سے 2 ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کو منتخب کیا جائے گا۔شہریار خان کی زیر قیادت بورڈ آف گورنرز کا آخری اجلاس ختم ہونے کے ساتھ ہی اب نئے بورڈ آف گورنرز نئے چیئرمین کا انتخاب کریں گے جس میں 4 نئے اراکین کا انتخاب کیا گیا ہے۔بورڈ آف گورنرز میں اسلام آباد، راولپنڈی، کراچی اور پشاور کی جگہ 4 نئے ریجنز فاٹا، لاہور، سیالکوٹ اور کوئٹہ متعارف کرائے گئے ہیں۔ 17-2016کی قائد اعظم ٹرافی میں کارکردگی کی بدولت واپڈا اور یونائیٹڈ بینک لمیٹیڈ ڈپارٹمنٹ کی حیثیت سے اپنی جگہ برقرار رکھنے میں کامیاب رہیں جبکہ نیشنل بینک اور سوئی ناردرن گیس اپنی جگہ کھو بیٹھی ہے اور ان کی جگہ حبیب بینک اور سوئی سدرن گیس کارپوریشن نے لے لی ہے۔دوسری طرف بورڈکے اقدامات سے نالاں کراچی سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن نے نئے نظام پر علم بغاوت بلند کردیا ہے۔6 اگست کو اپنی آئینی مدت مکمل کرنے والے ممبر پی سی بی گورننگ بورڈ و صدر کے سی سی اے پروفیسر اعجاز احمد فاروقی نے اپنے آخری اجلاس میں ڈرافٹ سسٹم پر سخت احتجاج کرتے ہوئے واک آؤٹ کرکے ہلچل سی مچا دی، پورے پاکستان کو پتہ چل گیا کہ ڈومیسٹک کرکٹ کے ساتھ کیا ہورہا ہے،اس حوالے سے ہونے والی ایک نشست میں پروفیسر اعجاز فاروقی نے اظہار خیال کر تے ہوئے کہا کہ میں پی سی بی کے کراچی کے حوالے سے تحفظات کو وقتا فوقتا سامنے لاتا رہا مگر دلاسے دیے جاتے رہے۔اب اجلاس میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے بھر پور دلائل بھی دیے، سب کو سمجھانے کی کوشش کی مگر کچھ فائدہ نہ ہوا، پانی سر سے اونچا ہونے پر گورننگ بورڈ کے اجلاس سے واک آؤٹ کیا، انھوں نے کہا کہ نئے ڈومیسٹک سیزن کے لیے ریجن کی ٹیموں کا سلیکشن ڈرافٹنگ کے ذریعہ کرنا درست نہیں، یہ عمل نوجوان کرکٹرز کا مستقبل تباہ و برباد کرنے کا سبب بنے گا، سارا پاکستان جانتا ہے کہ میں نے گورننگ بورڈ کے اجلاسوں میں ہر غیر آئینی، غیر قانونی اور غیر ضروری اقدامات کی مخالفت کی اور غیر ضروری تجاویز کی بھر پور مخالفت کرتے ہوئے ان کو منظوری سے روکا، بورڈکی ڈومیسٹک افیئرز کمیٹی کی تجویز کی روشنی میں آئندہ ڈومیسٹک سیزن کے لیے ریجن کی ٹیموں کا سلیکشن ڈرافٹنگ کے ذریعہ کرنے کے فیصلہ کی گورننگ بورڈ سے منظوری انتہائی غیر منصفانہ اقدام ہے۔مذکورہ تجویز کے تحت ریجن کے 8 کھلاڑی ریجنل سلیکشن کمیٹی منتخب کرتی جبکہ 8 کھلاڑی بذریعہ ڈرافٹنگ منتخب ہوتے لیکن میرے احتجاج پر 10 کھلاڑیوں کو سلیکشن کمیٹی اور 10 کھلاڑیوں کو ڈرافٹنگ کے ذریعہ منتخب کرنے کا فیصلہ کیا گیا، میرا موقف تھا کہ ڈرافٹنگ کا سسٹم ہی غیر منصفانہ ہے جو کراچی ریجن کی تباہی کا باعث بنے گا،ہم ڈرافٹنگ کے اس عمل کو یکسر مستردکرتے ہیں۔
، اس سسٹم کے نتیجے میں کسی بھی ٹورنامنٹ میں آخری پوزیشن آنے پر کراچی کی ٹیم اگلے برس کے ایونٹ سے خارج ہوجائے گی،کے سی سی اے کراچی ریجن کی ایک ٹیم کرنے پر پہلے ہی اپنا احتجاج ریکارڈ کرا چکی ہے۔