سعودی عرب میں سب کچھ خراب نہیں

221

Muzafer Ejazحصہ چہارم
جدہ کے جس علاقے میں ہماری رہائش تھی وہ پاکستانیوں کا علاقہ ہی تصور کیا جاتا ہے۔ اس علاقے میں گھومتے پھرتے ہوئے ہمیں بالکل ایسا محسوس نہیں ہوا کہ غیر ملکیوں پر مرافقین کی فیس نافذ ہورہی ہے پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کے بچے اسی طرح کھیل کود رہے تھے۔ مرافقین فیس تو اور دیگر ملکوں کے لوگوں پر بھی لگ رہی ہے لیکن شاپنگ سینٹرز میں وہ بھی نظر آرہے تھے۔ ہاں جدہ میں پاکستانیوں کی دو تین نشستوں میں اس پر بے چینی کا اظہار کیا گیا۔ لیکن دبے لفظوں میں۔ ہم نے بھی دبے لفظوں میں کہہ دیا کہ دینے پڑیں گے۔ ہم سعودی عرب میں صرف پانچ سال ملازمت کرکے آئے ہیں مجموعی طور پر سعودی عرب کو ترقی کے اعتبار سے آگے بڑھتا ہوا ہی پایا ہے۔ یہ جو مرافقین پر سو ریال فی کس فیس عائد کی گئی ہے۔ کئی برس سے تنگی میں کھینچ تان کر گزارہ کرنے والوں کے لیے تو یہ بڑی مشکل چیز ہوگی کسی بھی جگہ ملازمت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ آدمی اپنی آزاد مرضی سے کرتا ہے۔ جب پہلی تنخواہ ملتی ہے تو بھی اسے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا گزارہ ہوسکے گا یا نہیں۔ پھر بھی وہ کوشش کرکے فیملی کو بلوالیتا ہے اب مزید تنگی ہو جاتی ہے اسے اچھے حالات، اچھے ماحول کی خاطر برداشت کرتا ہے لیکن کب تک۔
ٹیکس فری ملک نے عالمی حالات کے تناظر میں اور اپنے ملک کے معاملات بہتر طریقے سے چلانے کے لیے یہ مشکل فیصلہ کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب کیا کیا جائے۔ اب صرف یہ ہوسکتا ہے کہ جو لوگ پہلے سے ہیں انہیں یہ فیس دینی ہوگی یا مرافقین کو وطن واپس بھیجنا ہوگا۔ یہی بات شعاع النبی نے سمجھائی تھی کہ واپس جانے کا خیال کبھی ذہن سے نہ نکالنا۔ بات دراصل یہ ہے کہ اگر ہم نے اس دنیا سے جانے کی حقیقت کو حرز جاں بنایا ہوتا تو امریکا، یورپ‘ سعودی عرب یا دبئی سے واپس آنا بھاری نہیں پڑتا، تو اب یہ ہوسکتا ہے کہ یا تو فیس دیں یا گھر والوں کو بھیج دیں۔ ہاں نئے آنے والے آنے سے قبل طے کرائیں کہ فیس کون دے گا اگر فیس اسے ہی دینی ہے تو تنخواہ میں اضافے کا مطالبہ کرے یا پھر سعودی عرب میں ملازمت نہ کرنے کا فیصلہ کرے۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ پاکستان سے بیرون ملک ملازمت ملتے ہی لوگ ملک سے بھاگنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں۔ کمپنی کی جانب سے ملنے والے معاہدے کو پڑھنے کی زحمت تک گوارہ نہیں کرتے۔ اگر بغور معاہدہ پڑھ لیں تو بہت سے مسائل پیدا ہی نہیں ہوں گے۔ بہرحال نئے حالات کی روشنی میں لوگ ضرور اس جانب توجہ دیں۔ ساتھ ہی یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ لوگ پہلے سے زیادہ اچھی طرح اچھی شرائط پر ملازمتیں حاصل بھی کررہے ہیں اور واپس بھی جارہے ہیں۔ بات مقدر کی ہے۔
اردو نیوز جا کر ایسا لگا کہ واپس آگئے۔ آ ملے ہیں سینہ چاکان وطن سے سینہ چاک۔ اگرچہ ہم سینہ چاک تو نہیں تھے لیکن سب سے بڑی وسیع القلبی سے ملاقات کی۔ ایک دفعہ نہیں دو دفعہ گئے جس اخبار کے آغاز آبیاری اور ترقی میں محنت کی تھی اس کی ترقی دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ آج کل جناب طارق مشخص اس اخبار کے ذمے دار ہیں اور بڑی جانفشانی سے کام کررہے ہیں۔ ان کی محنت سے اب اردو نیوز ویب پر بھی دستیاب ہے۔ صحرا میں اردو کی آبیاری اور فروغ پر ہر اردو بولنے لکھنے والے کو خوشی اور فخر ہونا فطری امر ہے لہٰذا اردو نیوز کی ترقی پر ہمیں خوشی ہوئی۔ ایک تقریب پاکستان رائٹرز فورم کی جانب سے بھی تھی جس میں احباب نے کچھ اتنی تعریفیں کردیں کہ ہم نے امیر محمد خان سے کہا کہ بھائی یہ کس کی باتیں کررہے ہیں ہم تالیاں بھی بجائے جارہے ہیں تو انہوں نے اسٹیج پر آکر بھی کہا کہ یہ آپ ہی کی تعریف ہورہی تھی آپ کے ساتھ گزرے ہوئے وقت کو یاد کرکے ہم اس سے بھی زیادہ تعریف کرنا چاہتے تھے۔ بہرحال یہاں بھی پاکستان کی سیاست اور صحافت دونوں کے زوال پر لوگ بڑے فکر مند تھے۔ سیاست پر تو ہم بھی برملا بات کرلیتے ہیں۔ صحافت کا نام آتے ہی اعتراف جرم کرکے خاموش ہوگئے۔ بات ہی کچھ ایسی ہے۔ یار لوگوں نے صحافت کو سہ آفت بنا رکھا ہے۔
ایک عید ملن انجینئرز فورم نے بھی سجا رکھی تھی اور اس کا مہمان خصوصی بھی ہمیں ہی بنا رکھا تھا۔ کیا جوڑ ہے انجینئر اور صحافی کا۔ لیکن ہم نے اس پر منتظمین کو تسلی دی کہ جناب آج کل تو ہر چیز انجینئرڈ ہے۔ الیکشن بھی، اینکرز بھی، صحافی بھی۔ تو انجینئرز سے ہمارا گہرا تعلق ہے۔ یہاں مسلمانوں کے سائنسی میدان میں پیچھے رہ جانے کا افسوس کیا گیا اور گفتگو کا رُخ اسی طرف تھا کہ مغرب ترقی کررہا ہے اور ہم تنزل کی طرف مائل ہیں۔ ہم نے انجینئرنگ اور پاکستان کی ترقی سے متعلق ایک مقالے کا خاکہ ذہن میں بنا رکھا تھا لیکن اس گفتگو کو سننے کے بعد ہم نے سب کچھ ایک طرف رکھ کر سوال کیا کہ آپ لوگ۔ بلکہ ہم سب لوگ مغرب کے پروپیگنڈے کی وجہ سے اس بات پر یقین کر بیٹھے ہیں کہ مسلمانوں نے کچھ نہیں کیا۔ میرا سوال ہے کہ اگر شافٹ کو نکال دیں تو کیا دنیا کا کوئی جہاز، ٹرین، گاڑی حتیٰ کہ ٹھیلا بھی چل سکے گا۔