کیا نوازشریف آنے کے لیے گئے ہیں؟

240

zc_ArifBeharنوازشریف اپنے گھرانے سمیت کتاب سیاست کا قصۂ پارینہ بن گئے۔ وہ تیسری بار بھی بطور وزیر اعظم اپنی مدت اقتدار مکمل نہ کر سکے۔ تیسری بار بھی ملک کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ وہ اچھے طریقے سے نباہ نہ کر سکے اور تصادم بڑھاتے بڑھاتے آخر کار حادثہ کروا بیٹھے۔ وہی اسٹیبلشمنٹ جس نے اسی کی دہائی میں انہیں بہت امیدوں اور خوابوں کے ساتھ سیاست میں متعارف کرایا تھا اور پھر انہیں اقتدار دلانے کے لیے فاول پلے سے بھی گریز نہیں کیا تھا۔ ان کی سیاست کی پتنگ کو اونچا اُڑانے کے لیے ملک کے بے پناہ وسائل صرف کیے جا تے رہے۔ جنرل ضیاء الحق بھٹو کا تختہ اُلٹ کر اقتدار میں آئے مگر وہ ایک چالاک انسان کے طور پر اس حقیقت سے غافل نہیں ہوئے کہ وہ شیر کی سواری کر رہے ہیں۔ جس دن نظر چوک گئی‘ توازن خراب ہوا اس دن شیر ان پر سوار ہوگا۔ ان کا پورا عہد اقتدار پیپلزپارٹی کو محدود کرنے کے تجربات کرتے بیت گیا یہ الگ بات کہ ان تجربات میں وہ ایم کیو ایم کی تخلیق جیسی حماقتیں بھی کر بیٹھے۔
ملکی اسٹیبلشمنٹ آج نوازشریف کی رونمائی اور متعارف کرانے کو بھی ضیاء الحق کی حماقت سمجھ رہی ہوگی۔ جنرل ضیاء الحق کے اسی نظریہ ضرورت نے جاگیر داروں کی جماعت پیپلزپارٹی کے بجائے صنعت کاروں کو آگے لاکر طاقت بنانے کا فیصلہ کیا۔ جاگیردار ناقابل اعتبار ہوتے جا رہے تھے۔ وہ ملکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہوتے مگر جونہی عالمی اسٹیبلشمنٹ کی سیٹی بجتی وہ اپنا مقام اور مدار از سرنو ترتیب دیتے۔ اس لیے پاکستان کی سیاست میں کاروباری، شہری اور صنعت کار طبقے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ ہوا۔ نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کی اس ضرورت کے اندر اپنے لیے راستہ بناتے چلے گئے۔ یہاں تک کہ وہ پنجاب میں پیپلزپارٹی کی کامیابیوں کے آگے مضبوط اسپیڈ بریکر لگانے میں کامیاب ہو گئے اور بات یہیں تک نہیں رہی بلکہ وہ پارٹی کے قدم اُکھاڑتے چلے گئے۔ نوازشریف نے اپنی فیصلہ کن لڑائی اسٹیبلشمنٹ اور دائیں بازو کے پسندیدہ نعروں کشمیر، افغانستان وغیرہ کے ساتھ لڑی اور وہ پیپلزپارٹی کو پنجاب سے پچھاڑنے میں کامیاب ہوئے۔ مطلق طاقت کی طرف بڑھتے ہوئے نوازشریف نے اپنی سیاست کو دائیں بازو اور اسٹیبلشمنٹ کے حصار سے نکالنا شروع کیا۔ وہ اپنے گرد مہربانوں اور قدردانوں کے تصورات، محبتوں اور امیدوں کا ہالہ توڑتے چلے گئے۔ اپنے سیاسی نظریات اور سماجی پس منظر اور فوج کی پسندیدگی کے باوجود عالمی طاقتوں نے انہیں پاکستانی سیاست کی زمینی حقیقت کے طور پر قبول کرکے انہی سے نباہ کرنے کی ٹھان لی تھی۔ عالمی طاقتوں کی یہی ضرورت اور نوازش میاں نوازشریف کی سیاست کا کانٹا بدلنے کا باعث بن گئی۔ ان کے کندھوںپر پاکستان اور بھارت کو تاریخ کی قید سے آزادکرنے کے برصغیر کے سب سے مشکل کام کا بوجھ لاد یا گیا۔ انہیں بتایا گیا کہ وہ پنجاب سے ہیں اور فوج ان کی مزاحمت نہیں کرے گی۔ وہ صنعت کار ہیں اور فوج جاگیرداروں کے برعکس ان پر اعتبار کرے گی۔ وہ دائیں بازو سے تعلق کا تاثر رکھتے ہیں جو انہیں کھل کر کام کرنے میں مددگار ہوگا۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے تراشیدہ ہیں اور وہ ان کے خلاف تلوار سونت کر میدان میں نہ آسکے گی۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ نے انہیں اردن کے شاہ حسین کی طرح خطے میں ’’مردِامن‘‘ بننے کی راہ دکھائی۔ یہ وہ دور تھا جب شاہ حسین فلسطین اور اسرائیل کے درمیان تیزی سے مصالحت کرارہے تھے۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ اسی طرز پر پاکستان اور بھارت کے مسائل کو حل کرنا چاہ رہی تھی۔ اس سفر میں صنعت کاروں نے بہت تیزی سے نوازشریف کو ایسے پرامن جنوبی ایشیا کی تصویر دکھا ئی جس میں سرحدوں کی حیثیت محض لکیروں کی سی تھی اور یہ لکیریں ملکوں اور قوموں بالخصوص پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کو بڑھنے سے نہیں روک سکتی تھی۔
یہ ایک نئی صبح کا تصور تھا جو نوازشریف کے ذہن میں ایسا بیٹھ گیا کہ پھر انہوں نے اس راہ میں پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ وہ اس تصور کو پانے کے لیے بگٹٹ دوڑتے چلے گئے۔ ملکی اسٹیبلشمنٹ نے نوازشریف کی اس کایا پلٹ کو اپنے لیے ایک مستقل چیلنج سمجھ لیا۔ انہیں میڈ ان پاکستان کے ہالے کو توڑتے ہوئے جدید، روشن خیال اور بڑے فیصلوں کے شوق میں غلطاں نوازشریف سے احساس شکست محسوس ہونے لگا۔ وہ سمجھنے لگے کہ جس شخص کا سراپا انہوں نے بھاری سرمایہ کاری اور کئی فاول پلیز کے ذریعے تراشا اور بے نظیر بھٹو کی سیاست کو محدود کیا تھا وہ شخص اب کے ہاتھ سے نکل کر زیادہ طاقتور ہاتھوں میں چلا گیا ہے۔ یہ خیال نوازشریف اور اسٹیبلشمنٹ میں مستقل کھٹ پھٹ کا باعث بن کر رہ گیا۔ نواز شریف کی سیاست کو مختلف ادوار میں کئی شخصیات نے چیلنج کرنے کی کوشش کی مگر اس وقت تک نوازشریف سیاست کے سارے گر سیکھ چکے تھے وہ ایسی کسی بھی کوشش کو ناکام بنانے کے فن سے آشنا ہو چکے تھے۔ نوازشریف ملکی اور غیر ملکی اسٹیبلشمنٹ کی کشمکش میں سینڈوچ بن کر رہ گئے۔ اس کشمکش میں ان کا مجموعی وزن عالمی طاقتوں کے پلڑے میں ہی پڑتا رہا۔ بھارت کے ساتھ دوستی ان کی سب سے بڑی خامی قرار پائی اور وہ خود بھی اس خُو کو ترک کرنے پر آمادہ نہ ہوئے۔ ان کے خاندان کی دنیا بھر میں جا ری کاروباری سرگرمیاں انہیں مزید معتوب بنانے کا باعث بن گئیں۔ یہ خیال پختہ ہوا کہ ان کے خاندان کی بیرونی دنیا میں کاروباری سرگرمیاں ملکی پالیسیوں پر اثرانداز ہو رہی ہیں۔ بھارت کی طرف سے نرم گوشے کا اظہار ان کے لیے مستقل خطرہ بن کر رہ گیا۔ پاناما کا مقدمہ اس ذرخیز اور ہموار زمین پر بارش کی ایسی پھوار ثابت ہوا جس کے بعد سب بیج تازہ ہو کر پھوٹتے چلے گئے۔ عمران خان ایک سیاسی دبائو کے طور پر اس مقدمے میں کھڑے ہو گئے اور یوں پاناما ان کی سیاست کی ٹرین کے تیسرے حادثے کا عنوان بن کر رہ گیا۔ پاکستانی سیاست سے ان کی رخصتی کا بندوبست ہو گیا ہے اب یہ شہباز شریف پر منحصر ہے کہ وہ آصف زرداری کی سی مہارت کے ساتھ سیاست کی نواز لگیسی کو شہباز لگیسی میں بدل پاتے ہیں یا نہیں؟ آصف زرداری نے بھٹو لگیسی کو جس صفائی سے زرداری لگیسی سے بدل دیا تھا وہ ماڈل شہباز شریف کے سامنے موجو دہے۔ مریم نواز کا چوتھی بار وزیر اعظم بننے کا خوش فہم ٹویٹ اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ نوازشریف کے گھرانے کے سیاسی مستقبل شہباز شریف کے ہاتھ ہے جنہیں مسلم لیگ ن نے مستقل وزیراعظم نامزد کردیا ہے۔