مزدور دوست پارٹی مزدوروں کو مایوس کررہی ہے

191

قموس گل خٹک
ہماراملک ساخت کے لحاظ سے چار صوبوں پر مشتمل وفاق ہے‘ اس لیے اس ملک کو انتظامی طورپر چلانا آسان کام نہیں ہے۔ آزادی کے بعد چھوٹے صوبوں کا سب سے بڑا سیاسی مسئلہ صوبائی خودمختاری کا تھا جو کئی عرصہ تک یہ سیاسی مسئلہ ملکی سلامتی کے خلاف سمجھا جاتا تھا ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ غوث بخش برنجو کی جیب سے ایک کرنسی نوٹ برآمد کرنے کا دعویٰ کیا گیاجس پر تحریر تھا کہ ون یونٹ توڑ دو اس جرم پر بزنجو کو طویل مدت کی سزادی گئی۔اور اسی مطالبے کے تسلسل پر باچہ خان اور خان عبدالولی خان کو غدار کہا گیا انہیں جیلوں میں قیدو بند کی صعوبت بھی برداشت کرنا پڑی لیکن جمہوریت کی بحالی کے بعد آصف علی زرداری کی صدارت میں پارلیمنٹ نے کئی بنیادی فیصلے کیے اس میں اٹھارویں آئینی ترمیم کو تاریخی اہمیت حاصل رہے گی جس کے ذریعے صوبوں کو خود مختاری حاصل ہوئی۔ اس سے پہلے عام طورپر چھوٹے صوبوں کے محنت کش کہا کرتے تھے کہ اسلام آباد سفید ہاتھی ہے جس پر ہم سواری نہیں کرسکتے اگر صوبائی خود مختاری حاصل ہوجائے تو ہم اپنے مسائل کے سلسلے میں صوبائی ہیڈ کوارٹرز سے باآسانی رجوع کرسکتے ہیں اور حکومتی اتھارٹی پر دباؤ ڈالنے کے ذرائع بھی استعمال کرسکیں گے۔ اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد حکومت سندھ نے بہت تیزی کے ساتھ صوبائی لیبر قوانین منظور کرائے مگر ان قوانین میں دنیامیں بنیادی تبدیلیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی مثبت تبدیلیاں نہیں کی گئی بلکہ زیادہ تر پرانے قوانین پر صوبائی لیبل چسپاں کیے گئے۔ یہاں تک کہ مائینز ایکٹ 1936کی جگہ مائینز ایکٹ2012کے نفاذ سے پہلے اس شعبے سے متعلق ایمپلائر اور مزدور لیڈروں سے مشورہ کرنا بھی گوارا نہ کیا گیا۔ صوبائی خود مختاری ملنے اور صوبائی قوانین کے نفاذ کے بعد سندھ میں سہ فریقی اداروں کو مزوروں کے ویلفیئر اداروں کے بجائے دیدہ دلیری سے حکومتی ادارے بنائے گئے ان اداروں کی سہ فریقیت اور اسٹیک ہولڈر کی نمائندگی کو عملاً ختم کیاگیا ایسے ایسے افراد کو مزدور
لیڈر اور ایمپلائر نمائندگی کے طورپر ان سہ فریقی اداروں میں شامل کیا گیا، جن کی وجہ سے حکومت کے مزدور دوستی کے نعروں کی تردید ہورہی ہے۔ سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ کی سہ فریقیت کو ختم کرکے اس کو حکومتی ادارہ بنایا گیا اور تین حکومتی نمائندوں کے بجائے 9 نمائندے نامزد کیے گئے، تین صوبائی اسمبلی کے ممبران کے علاوہ صوبائی لیبر سیکرٹری کی جگہ لیبر منسٹر کو بورڈ کا چیئرمین بنا دیا گیا اس طرح سندھ ورکرز ویلفیئر بورڈ محکمہ لیبر کا سہ فریقی ویلفیئر ادارہ ہونے کی بجائے قطعی طور پر حکومتی ادارہ بن گیا۔ مزدوروں اور ایمپلائر کے نمائندے بھی حکمران جماعت سے لیے گئے تاکہ مجوزہ حکومتی اسکیموں پر اعتراض کرنے والا یا بورڈ کی میٹنگ میں بولنے والا کوئی نہ ہو اور حکومت اپنی مرضی و منشا کے مطابق مزدوروں کے ویلفیئر کے نام پر وصول کردہ فنڈز کو خرچ کرسکیں۔ ان حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ایک پرانے مزدور نے ایک میٹنگ میں کہا کہ ہم سفید ہاتھی (اسلام آباد) کی پیٹھ سے اُتر کر کالے ہاتھی (صوبائی) پر بیٹھ گئے جس نے ہمارے کپڑے بھی داغدار کردیے۔ اب ہم پچھتارہے ہیں کہ اس سے توسفید ہاتھی کی سواری بہتر تھی کیوں کہ ویلفیئر کے حوالے سے کچھ تو ملتا تھا۔ میں نے اس مزدور کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ سفید اور کالا ہاتھی دونوںایک نسل، عادت اور طبقاتی مفادات سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے دونوں کا برتاؤ طریقہ کار اور مزدور دشمنی کے طریقے بھی یکساں ہیں۔ ورکرز ویلفیئر فنڈ اسلام آباد سے بھی مزدوروں کی فلاح وبہبود کی اسکیمیں عملاً بند ہیں اور بلڈنگوں کی تعمیراتم بیوروکریٹ کی عیاشیوں پر مزدوروں کا فنڈ خرچ کیا جارہاہے وہاں بھی اسٹیک ہولڈر کی نمائندگی میں یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ مستند لیبر لیڈر جو بولنے اور سمجھتے والے ہوں گورننگ باڈی میں نہ آئیں۔ تاکہ وہ مجوزہ ویلفیئر اسکیموں پر باآسانی ممبران سے انگوٹھے لگوا سکیں۔ یہ سلسلہ ملکی سطح پر جاری ہے۔ KPK نے اس سلسلے میں سندھ کو بھی پیچھے چھوڑدیا ہے حالاں کہ سندھ کے صوبائی ویلفیئر اداروں میں نامزدگی کا سلسلہ تو حیران کن غیر معیاری اور شرمناک حدتک پہنچادیا گیا اگر حکومت اپنی پارٹی کے حامی لیبر لیڈر کو بھی کسی معیار کی بنیاد پر نامزد کرتی تو کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ جیسے کہ حبیب الدین جنیدی پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا لیکن راتوں رات فیڈریشن کا لیٹر ہیڈ چھپوا کر ریٹائرڈ افسران سرکاری ملازمین یا ایسے افراد کو مزدور لیڈر بناکر سہ فریقی ویلفیئر اداروں میں نامزد کیاجانا جس کو پورے صوبے کی سطح پر کوئی جانتا ہی نہیں۔ اس سے ویلفیئر اداروں اور حکومت کو کیا فائدہ ہوگا، ماسوائے اس کے کہ ان سے ہر جائز ناجائز پر انگوٹھے لگوائے جاسکتے ہیں۔ جس سے ان کی کرپشن کو فروغ مل سکتا ہے ۔
میں تو باربار کہتا ہوں کہ مزدور طبقے کو پاکستان پیپلز پارٹی سے جوتوقعات وابستہ تھیں وہ ان اقدامات کی وجہ سے مایوسی میں تبدیل ہورہی ہیں۔ مزدور یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ جو حکمران جماعت ویلفیئر کے اداروں میں باکردار اور دیانتدار مزدور لیڈروں کو برداشت نہیں کرتی وہ مزدوروں کی فلاح وبہبود کے لیے کیوں کر کام کرے گی۔ اس طرح ایک متعلقہ وزیر یا بیوروکریٹ کی ذاتی خواہش یا کرپشن کے لیے حکمران جماعت جوسیاسی نقصان کررہی ہے وہ آنے والے الیکشن میں ظاہر ہوجائے گا۔ سعید غنی کا الیکشن جیتنے کی غلط فہمی میں نہ رہاجائے کیوں کہ سعید غنی نے مشیر محنت بن کر خود کو مزدور دوست ثابت کیا تھااور اس حلقے میں سب سے بہتر امیدوار سعید غنی تھے جس کو پورے سندھ کے مزدور رہنماؤں کی حمایت حاصل تھی اور تمام مزدور رہنما یہ خواہش بھی رکھتے ہیں کہ الیکشن میں کامیابی کے بعد سعید غنی کو وزیر محنت کا قلمدان دیاجائے تاکہ جہاں سے اس نے اپنے مشن کو ادھورا چھوڑا تھا وہاں سے دوبارہ مزدور دوستی کے مشن کو مکمل کیا جاسکے۔ میں نے پچھلے آرٹیکل میں لکھا تھا کہ سندھ کے محکمہ لیبر میں تبدیلی کے بعد مزدور طبقہ رائے رکھتا ہے کہ اس سے پہلے والا اچھا تھا۔لیکن مشیر محنت جونیجو کے بعد یہ تاثر بھی ختم ہوگیا اس کے جانے کے بعد کسی نے یہ نہیں کہاکہ بعد کے آنے والے سے جونیجو کا دور اچھاتھا۔ کیوں کہ اس کے بعد سعید غنی نے چارج لے کر اپنے عمل کردار سے یہ ثابت کردیا تھا کہ جانے والے سے آنے والا بہتر تھا۔ ہمیں یہ توقع تھی کہ آئندہ سہ فریقی ویلفیئر اداروں میں جعلی نمائندگی کی بجائے میرٹ پر نمائندگی کا سلسلہ شاید بحال ہواور حکمران جماعت مزدوروں کی توقعات کے مطابق ان اداروں کو فعال بنانے پر توجہ دے گی۔ مگر صد افسوس کہ حال ہی میں سوشل سیکورٹی انسٹی ٹیوشن اور منیمم ویجیز بورڈ میں جونامزدگیاں کی گئی ہے اس نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑکر نیا ملکی ریکارڈ قائم کردیا۔ جس پر نامزدگی کی منظوری دینے والوں کو ایوارڈ ضرور ملنا چاہیے۔ مزدورنمائندگی کے نام پر نامزد افراد کو پورے سندھ میں چار آدمی بھی نہیں جانتے مگر حکومتی اختیارات کے کرشمے نے انہیں راتوں رات فیڈریشن کا لیبر لیڈر بنا کر سندھ کے مزدوروں کو حیرت میں ڈال دیا اور وہ سوچتے ہیں کہ مزدور دوستی کا نعرہ لگانے والوں نے خود اپنے دعووں کی تردید کردی اور یہ ثابت کردیا کہ ان اداروں کو مزدور ویلفیئر کے بجائے کرپشن کا گڑھ بنانے کی پالیسی پر عملدرآمد جاری ہے اور مستقبل میں بھی کوئی یہ توقع نہ رکھے کہ سندھ میں ویلفیئر کے ان اداروں کو بہتر نمائندگی کے ذریعہ موثر اور فعال بنایا جاسکتا ہے، جب تک کہ مزدور رہنما بلا امتیاز میرٹ پر نمائندگی کے لیے جدوجہد کے ذریعہ دباؤ نہ ڈالیں یا اعلیٰ عدلیہ سے انصاف کے حصول کے لیے رابطہ نہ کریں ۔