پنجاب کے مقابلے میں سندھ کے حکمرانوں کی کارکردگی صفر ہے

152
یہ خبریں ہمیں میڈیا سے مل رہی ہیں کہ صوبہ پنجاب میں ترقیاتی کام وقت سے پہلے مکمل کیے جارہے ہیں۔ اکثر منصوبے اپنی اصل لاگت سے کم میں تیار ہورہے ہیں۔ صوبہ پنجاب میں قانونی طور پر کہ کنٹریکٹرز کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ منصوبے کی سائٹ پر منصوبے سے متعلق تمام تر تفصیلات آویزاں کرے گا۔ یہ تو ہوئی صوبہ پنجاب کی صورت حال جو الیکٹرونک میڈیا دکھاتا رہتا ہے، اس کے علاوہ ایک نئی روایت صوبہ پنجاب میں یہ دیکھنے میں آرہی ہے کہ جو ترقیاتی کاموں کی منصوبہ بندی کرتا ہے اگر عوام میں کوئی سمجھتا ہے کہ یہ منصوبہ یا منصوبے کا کچھ حصہ عوامی مفاد کے خلاف ہے تو فوراً ہائی کورٹ میں پٹیشن داخل کی جاتی ہے، فوراً شنوائی ہوتی ہے یا تو حکومت پنجاب عدالت کو مطمئن کرتی ہے یا پھر منصوبے میں فوراً ردوبدل کرتی ہے لیکن جو منصوبہ شروع کیا جاتا ہے اُسے تکمیل تک ضرور پہنچایا جاتا ہے، اس کے برعکس صوبہ سندھ خصوصاً کراچی میں الیکشن سے ایک ڈیڑھ سال میں جو منصوبے شروع کیے گئے ہیں اُن کو نہ مشتہر کیا جاتا ہے، نہ تفصیلات بتائی جاتی ہیں اور نہ ہی لاگت دکھائی جاتی ہے۔ جب کہ صوبہ سندھ میں منصوبوں کی تکمیل کی مدت کا پتا نہیں۔ البتہ پراسرار انداز میں لاگت کا تخمینہ ضرور بڑھ جاتا ہے اور ایسا ہر منصوبے میں ہو رہا ہے۔ کراچی گرین لائن منصوبہ کا کوئی پتا نہیں کہ کب پایہ تکمیل کو پہنچے گا، طارق روڈ کی استرکاری میں یکایک کروڑوں کا اضافہ کرکے افتتاح کیا گیا۔ یونیورسٹی روڈ استرکاری منصوبے کی مدت اور لاگت بڑھتی چلی جارہی ہے اور قریباً سال بھر سے شاہراہ فیصل کو تخت مشق بنایا ہوا ہے۔ اس کا پتا ہی نہیں ہے کہ اصل منصوبہ ہے کیا؟ اس کی لاگت کا تخمینہ کتنا ہے؟ اور یہ منصوبہ مکمل کب تک ہوگا۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر ٹرانسپورٹ سے محروم ہے، فضلہ ملا پانی ترسیل ہورہا ہے پورا شہر کچرے کا ڈھیر بن چکا ہے، سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، برسوں سے برساتی نالوں کی صفائی نہیں کی گئی، سیوریج کا کوئی پُرسان حال نہیں ہے، دس سال میں سرکلر اور لوکل ٹرین کے اجرا کے لیے رَتی برابر کام نہیں ہوا، بس بھٹو زندہ ہے، شہید رانی ہماری قائد ہے، جمہوریت بہترین انتقام ہے، جیسے لایعنی اور بے معنی نعروں کے علاوہ پیپلز پارٹی نے کچھ نہیں دیا ہے۔
بیگم نیلم ثمرینہ، سعدی ٹاؤن بلاک5، ملیر کنٹونمنٹ بورڈ کراچی