المرکز الاسلامی کی بحالی کی طرح پاکستان کا اصل تشخص بھی قائم ہوگا

761

محمد سمیع
مسلمانوں کو غزوئہ احد میں ان کی غلطی کی بناء پر چرکہ لگا تھا جس کی وجہ سے جنگ کا پانسہ پلٹ گیا تھا۔ اس پر تسلی دیتے ہوئے سورہ آل عمران میں فرمایا گیا کہ: اگر آج تمہیں چرکہ لگا ہے تو اس سے پہلے کفار کو بھی غزوئہ بدر میں چرکہ لگ چکا ہے اور یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جو ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ قرآن کریم ایک زندئہ جاوید کلام ہے۔ آج بھی ہم اگر اپنے حالات پر غور کریں تو ہمیں اس سے رہنمائی ملتی ہے۔
ایک دور وہ تھا جب کراچی میں ایم کیو ایم کا طوطی بولتا تھا اور اس نے طاقت کے بل پر نہ صرف یہ کراچی کے پارکس پر قبضہ کرکے وہاں اپنے یونٹ دفاتر قائم کرلیے تھے۔ کراچی میں نعمت اللہ خان کے دور میں ایک مرکز الاسلامی قائم ہوا تھا اور اس کے نام سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی نوعیت کیا تھی۔ لیکن ایم کیو ایم نے اس کی ہیئت تبدیل کرکے اسے سینما بنادیا تھا۔ جماعت اسلامی جسے یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ یہ واحد سیاسی جماعت ہے جو ایم کیو ایم سے ٹکر لیتی رہی۔ اس نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح پارک کو ایم کیو ایم کے دفاتر سے خالی کروایا جائے اور المرکز الاسلامی کی سابقہ حیثیت بحال کروائی جائے لیکن اپنے اس مقصد میں کامیاب نہ ہوسکی۔ اس مشہور محاورے کے مطابق کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس تو اس وقت لاٹھی ایم کیو ایم کے ہاتھ میں تھی لہٰذا جماعت اسلامی اس سے ٹکر لینے میں کہاں کامیاب ہوسکتی تھی۔
قرآن کا وہ فرمودہ سامنے آیا جس کا تذکرہ سطور بالا میں آیا اور گردش دوراں نے ایم کیو ایم کو اپنے شکنجے میں کس لیا اور لوگوں نے دیکھا کہ کسی جماعت کو اس کی حاجت نہ رہی کہ وہ پارک اور المرکز الاسلامی کی حیثیت کو بحال کرنے کے لیے اسے کچھ کرنے کی ضرورت ہو اور کراچی میں حالیہ ٹارگیٹڈ آپریشن کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ پارک میں قائم ایم کیو ایم کے دفاتر مسمار کردیے گئے اور ان کے ملبے آج بھی لوگوں کے لیے عبرت کا نشان بنے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف المرکز الاسلامی کی سابقہ حیثیت بحال کرنے کے لیے عدالتی احکامات جاری ہوئے اور کل کے ایم کیو ایم کے مشیر داخلہ وسیم اختر صاحب جو آج کراچی کے میئر بنے ہوئے ہیں اور جن کے سابقہ دور میں 12مئی کا وہ سانحہ ہوا جس کے نتیجے میں محض اس وقت کے چیف جسٹس کی کراچی میں داخلے کو روکنے کے لیے درجنوں افراد کا خون بہایا گیا اور اس وقت کے صدر نے جس کا نام لینا بھی گوارہ نہیں، اسلام آباد میں مکہ لہراتے ہوئے کہا تھا کہ لوگوں نے عوامی طاقت کا مظاہرہ دیکھ لیا، آج وہی وسیم اختر صاحب لوگوں کو المرکز الاسلامی کی سابقہ حیثیت کی بحالی کی یقین دہانی کروارہے ہیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
ہم بحیثیت قوم پاکستان کے اس تشخص کو قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں جس کے لیے یہ ملک حاصل کیا گیا تھا۔ ستر سال سے وطن عزیز میں اسلام کے نظام عدل کے قیام کی جدوجہدجاری ہے۔ ہمارے حکمراں اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے اس دوران اسلام کا بہت نام لیتے رہے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ان کی ساری سعی و جہد اسلامی نظام کا راستہ روکنے ہی میں صرف نہیں ہوئیں بلکہ منافقت کا حال یہ ہے کہ ایک جانب اسلامی مشاورتی کونسل قائم کی گئی تاکہ غیر اسلامی قوانین کو اسلام کے سانچے میں ڈھالا جاسکے لیکن اس کی سفارشات کو ہمارے کسی حکمراں نے در خور اعتناء نہیں سمجھا۔
اس کے برعکس کئی غیر شرعی قوانین جاری کیے گئے۔ افسوس صد افسوس ہماری وہ جماعتیں جو ملک میں اسلامی نظا م کے نفاذ کی داعی ہیں، اپنی توانائیاں جمہوریت کی بحالی کی تحریکوں میں تو لگاتی رہیں لیکن ان غیر شرعی قوانین کے خلاف انہوں نے کوئی تحریک نہیں چلائی۔ نہ قوم ہی کو اس سے دلچسپی ہے کہ یہاں اسلامی نظام کا نفاذ ہو۔ ہاں البتہ ہمیں یہ توقع ضرور ہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان لیل و نہار کو گردش میں لائے گا اور جس طرح آج المرکز الاسلامی کی سابقہ حیثیت کی بحالی کی راہ ہموار ہوئی ہے، پاکستان کا اصل تشخص بھی قائم کروائے گا اور ہم جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اسلامی انقلاب پاکستان کا مقدر ہے، وہ حقیقت بن کر سامنے آئے گا۔ان شاء اللہ