برآمدی منڈیوں میں سخت مسابقت‘ 20کروڑ ڈالر کی کینو کی برآمدات خطرات کا شکار

366

کراچی(اسٹاف رپورٹر) مراکش، مصر اور ترکی کی کرنسی کی قدر میں نمایاں کمی اور ان ملکوں میں ہارٹی کلچر سیکٹر کے لیے سرکاری مالی معاونت کی وجہ سے پاکستان کے لیے 200ملین ڈالر کی کینو کی برآمدی صنعت کا وجود برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔ آل پاکستان فروٹ اینڈ ویجیٹبل ایکسپورٹرز امپورٹرز اینڈ مرچنٹس ایسوسی ایشن نے بین الاقوامی مارکیٹ میں درپیش سخت مسابقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کینو کی ایکسپورٹ کے لیے حکمت عملی مرتب کرلی ہے جو مقامی سطح پر کینو کی مناسب قیمت پر خریداری، کاشتکاروں میں معیار سے متعلق شعور اور آگہی کے فروغ اور جدید زرعی اصولوں سمیت نئی ورائٹیز کی تیاری کے لیے حکومتی معاونت جیسے اہم نکات پر مشتمل ہے۔کینو کی برآمدات کو درپیش مسائل پر غور کے لیے ایسوسی ایشن کا اجلاس بھلوال میں منعقد ہوا جس میں ایسوسی ایشن کے چیئرمین عبدالمالک، سینئر وائس چیئرمین انصراقبال، ایگزیکٹو اراکین سرفراز حسین رانجھا، شاہد سلطان، دوست محمد، ارمغان ربانی، سابق وائس چیئرمین اسلم پکھالی، سابق سینئر وائس چیئرمین ماجد سمیت کینو کے فارمرز، پراسیسرز اور ایکسپورٹرز کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ وحید احمد نے کہا کہ پاکستانی کینو کم قیمت ہونے کی وجہ سے فروخت ہوتا ہے، تاہم مراکش، مصر اور ترکی کی کرنسیوں میں غیرمعمولی کمی اور ان ملکوں کی جانب سے کینو کے برآمد کنندگان کو انوائس ویلیو پر 5سے 7فیصد کی مالی معاونت کی ادائیگی کی وجہ سے پاکستان کے لیے 200ملین ڈالر کی کینوکی برآمدی صنعت کا وجود برقرار رکھنا دشوار ہوچکا ہے۔ گزشتہ سیزن میں ایکسپورٹرز کو 40سے 45ملین ڈالر خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ حریف تجارتی ملکوں کے کینو کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے پاکستانی کینو اپنی لاگت سے بھی کم قیمت پر فروخت کیا گیا۔
بالخصوص روس کی بڑی مارکیٹ میں پاکستانی ایکسپورٹرز کو بھاری نقصان اٹھانا پڑگیا۔انہوں نے کہا کہ ایران پاکستانی کینو کی اہم مارکیٹ ہے تاہم امپورٹ پرمٹ جاری نہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ سیزن ایران کو پاکستان سے کینو ایکسپورٹ نہ ہوسکا۔ وفاقی حکومت انڈونیشیا کے ساتھ ترجیحی تجارت کا معاہدہ منسوخ کرنے پر غور کررہی ہے اس صورت میں پاکستان کے لیے انڈونیشیا کی مارکیٹ بھی بند ہوجائے گی جبکہ سیاسی بحران کی وجہ سے مڈل ایسٹ جیسی مارکیٹ میں بھی خدشات کا سامنا ہے۔ پی ایف وی اے کے سرپرست اعلیٰ وحید احمد کی جانب سے پاکستانی ہارٹی کلچر انڈسٹری کو درپیش مسائل اور خدشات کے بارے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کو تفصیلی بریفنگ دی گئی تھی تاہم حکومت نے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ وحید احمد نے کینو کی صنعت سے وابستہ افرادپر زور دیا کہ اس صنعت کی بقاء کے لیے قلیل مدتی، وسط مدتی اور طویل مدتی اقدامات کریں۔ کینو کے معیار کی بہتری کے لیے کاشتکاروں کی معاونت کی جائے جبکہ کینو کے پیداواری سیزن کو بڑھانے اور نئی ورائٹیز کی تیاری پر توجہ دی جائے، انہوں نے حکومت پر زور دیا کہ پاکستانی معیشت اور روزگار کی فراہمی میں اہم کردار ادا کرنے والی ہارٹی کلچر انڈسٹری پر توجہ دی جائے اور ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کے لیے فنڈز مختص کرنے کے ساتھ برآمدات پر 10فیصد مالی معاونت فراہم کی جائے۔انہوں نے فارمرز پر بھی زور دیا کہ وہ دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایکسپورٹرز کو کم قیمت پر کینو فراہم کریں تاکہ برآمدی منڈی میں مسابقت کو آسان بنایا جاسکے، وقتی اور ایک سیزن کے فائدے پر طویل مدتی فائدے کو ترجیح دی جائے اگر ایسا نہ کیا گیا تو ایکسپورٹ بند ہوجائے گی جس کا سب سے زیادہ نقصان بھی خود فارمرز کو برداشت کرنا پڑے گا اس لیے وقت کی ضرورت ہے کہ مل جل کر اس چیلنج سے نمٹا جائے۔ اجلاس میں شریک دیگر اسٹیک ہولڈرز نے بھی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے پی ایف وی اے کے پلیٹ فارم سے مشترکہ کوششوں پر اتفاق کیا۔ اس موقع پر کینو کی خریداری اور انتظامیہ کی جانب سے قیمت مقرر کرنے کے مسئلے پر تفصیلی غور کیا گیا ۔ اجلاس کے شرکاء نے انتظامیہ کی جانب سے کینو کی قیمت مقرر کرنے کے اقدام کو فری مارکیٹ اکانومی کے اصولوں سے انحراف قرار دیتے ہوئے کینو کی قیمت معیار کے مطابق مقرر کرنے کی تجویز دی جس پر عملدرآمد کے لیے اختر سعید، چوہدری نصیر، عقیل گل، سرفراز رانجھا، جاوید روانہ اور حاجی یونس پر مشتمل چھ رکنی کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا گیا جو ایکسپورٹ کوالٹی کینو کی خریداری کے لیے نرخ مقرر کرے گی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کینو کی صنعت کو درپیش مسائل بالخصوص برآمدی منڈیوں میں درپیش مسابقت کے مسائل کے بارے میں وزارت تجارت کو تفصیلی مراسلہ بھیجا جائے گا تاکہ حکومت کو کینو کی صنعت سے متعلق خدشات کی سنگینی سے آگاہ کیا جاسکے ۔