اسرائیل کی بانہوں میں ہندوستان

749

indian pressمعصوم مراد آبادی
بی جے پی لیڈر جسونت سنگھ سن دو ہزار میں اسرائیل کا دورہ کرنے والے پہلے ہندوستانی وزیر خارجہ تھے۔ انہوں نے وہاں دیوار گر یہ کو بوسہ دے کر کہا تھا کہ اسرائیل سے سفارتی رشتوں کے درمیان دراصل ہندوستان میں اقلیتوں کی منہ بھرائی کی پالیسی حائل تھی۔ ظاہر ہے وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ ہندوستان میں مسلم ووٹ بینک کی وجہ سے اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے میں تاخیر ہوئی، جس کے لیے وہ شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔ یہ واقعہ 17 سال پہلے کا ہے، جب مرکز میں سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت میں تھی۔ لیکن آج جب بی جے پی کی مکمل اکثریت والی حکومت کے وزیراعظم نریندر مودی پورے تام جھام کے ساتھ اسرائیل ہوکر آئے ہیں تو ان کی پارٹی ہندوستان میں مسلم ووٹ بینک اور اقلیتوں کی منہ بھرائی کی پالیسی کا مکمل خاتمہ کرچکی ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسرائیل پہنچنے پر ان کا اتنا والہانہ خیر مقدم کیاگیا کہ اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔ تل ابیب، ائرپورٹ پر ان کا خیر مقدم کرنے کے لیے وزیراعظم نیتن یا ہو اور ان کی پوری کابینہ موجود تھی۔ دونوں سربراہوں کے درمیان گرم جوشی کا عالم یہ تھا کہ دونوں 18 منٹ میں تین مرتبہ بغل گیر ہوئے اور چار مرتبہ ہاتھ ملایا۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے ہندی میں یہ کہہ کر وزیراعظم مودی کو مخاطب کیا کہ ’’آپ کا سواگت ہے میرے دوست۔ ہمیں اس دورے کا انتظار پچھلے 70 سال سے تھا‘‘۔ اسرائیلی وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان رشتوں اور تعلقات کی حد آسمان سے بھی اونچی ہے اور ان کی اور مودی کی جوڑی جنت میں بنی ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی نے گزشتہ تین سال کے عرصے میں یوں تو غیر ملکی دوروں کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہیں کیا۔ وہ شاید اب تک سب سے زیادہ غیر ملکی سفرکرنے والے وزیر اعظم بھی بن گئے ہیں۔ ان کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر غیر ملکی دورے کو ایک جشن میں تبدیل کرنے اور زیادہ سے زیادہ شہرت بٹورنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان حالیہ دورۂ اسرائیل اس اعتبار سے اہمیت کا حامل ہے کہ اس کے پس منظر اور پیش منظر میں بہت سی کہانیاں پوشیدہ ہیں۔ ایک طرف جہاں اس دورے سے ہندوستان کی خارجہ پالیسی میں اہم تبدیلی رونما ہورہی ہے، وہیں اس کے ساتھ ہندوستان نے ناوابستہ تحریک کی باقیات کو بھی دفن کردیا ہے۔ حالانکہ فلسطینی اتھارٹی کے ترجمانوں کو امید ہے کہ اس دورے کے باوجود ہندوستان سے اس کے پہلے جیسے متوازن تعلقات قائم رہیں گے لیکن مودی نے اسرائیل کے اس دورے میں فلسطین کو قطعی نظر انداز کردیا ہے۔ اسرائیل اور ہندوستان کے درمیان سفارتی رشتے یوں تو 1992ء میں اس وقت قائم ہوئے تھے۔ جب ملک میں نرسمہارائو کی قیادت والی کانگریس کی سرکار تھی۔ لیکن اس وقت کے وزیراعظم نے اسرائیل کا دورہ کرنے کی ہمت نہیں کی۔ شاید اس کے پیچھے وہ نظریاتی اور اصولی موقف تھا جس کے تحت فلسطینیوں کو ان کی زمین سے بے دخل کرکے 1948 میں یہودی ملک کا قیام عمل میں آیا تھا۔ فلسطینیوں کی حمایت کی اسی پالیسی کے پس پشت مسلم دنیا اور ہندوستان کے اسلامی معاشرے کی حمایت کا جذبہ بھی پوشیدہ تھا۔ لیکن نا وابستہ تحریک کے بکھرنے کے ساتھ اسرائیل ہندوستان کے لیے اہمیت اختیارکرتا چلا گیا۔ رسمی طور پر خواہ دونوں ہی حکومتیں زراعت، پانی، ماحولیات، صحت اور سائنس کے میدان میں نئے نئے سمجھوتے کریں لیکن دونوں ملکوں کی فکر کا محور سیکورٹی موضوعات ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ اسرائیل امریکا کے بعد ہندوستان کو سب سے بڑا دفاعی آلات فراہم کرنے والا ملک ہے۔ اسرائیل نے ہندوستان کو ڈرون طیارے ہی فراہم نہیں کیے بلکہ حال ہی میں 630 کروڑ ڈالر کا بارک میزائل سودا بھی کیا ہے۔ ہندوستان کی سیکورٹی پالیسی کو دفاعی سے جارحانہ بنانے میں بھی اسرائیلی پالیسی سازوںنے بالواسطہ طور پر مدد کی ہے۔ ہندوستان اور اسرائیل کی بڑھتی ہوئی قربتوں کا ہی نتیجہ ہے کہ گزشتہ دنوں فلسطینی صدر محمود عباس کے ہندوستانی دورے کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی۔
یوں تو وزیراعظم نریندر مودی اس سے قبل گجرات کے وزیراعلیٰ کے طور پر بھی اسرائیل کا دورہ کرچکے ہیں۔ لیکن وزیراعظم کے طور پر انہوں نے یہ ریکارڈ قائم کیا ہے کہ وہ غاصب اسرائیل کی سرزمین پر قدم رکھنے والے پہلے ہندوستانی وزیراعظم بن گئے ہیں۔ ان کا یہ دورہ ایک ایسے موقع پر ہوا ہے جب دونوں ملک اپنے سفارتی رشتوں کے قیام کی سلور جوبلی منارہے ہیں اور اس کا جشن نئی دہلی سے زیادہ تل ابیب میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ ہندوستان شروع سے ہی ناوابستہ تحریک کے ایک سرگرم رکن کے طور پر فلسطینی کاز کی حمایت کرتا رہا ہے۔ اس نے ظالم و جابر اسرائیل کے وجود کو برسہا برس تک تسلیم نہیں کیا اور اقوام متحدہ میں اسرائیل کی مذمت میں پاس ہونے والی قرار دادوں کی مسلسل حمایت کی ہے۔ یہ قرار دادیں فلسطینی باشندوں پر اسرائیلی درندگی کے خلاف پاس ہوتی رہی ہیں جنہیں اسرائیل حقارت سے ٹھکراتا رہا ہے۔
تنظیم آزادی فلسطین کے رہنما یاسر عرفات نے ہندوستان کے درجنوں سفر کیے۔ وہ ہندوستان کو اپنا وطن ثانی قرار دیتے تھے۔ راقم الحروف نے ایسے ہی ایک سفر کے دوران نئی دہلی میں منعقدہ ایک استقبالیہ تقریب میںان سے معانقے کی سعادت حاصل کی تھی۔ یاسر عرفات ہندوستان کو اپنا وطن ثانی قرار دیتے تھے اور انہوں نے آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی کو اپنی منہ بولی بہن قرار دیا تھا۔ ہندوستان سے یاسر عرفات کی اس جذباتی وابستگی سے بڑا سبب یہ تھا کہ ہندوستان نے ہمیشہ فلسطینی کاز کی حمایت کی اور فلسطینیوں پر اسرائیلی وحشت اور درندگی کی مذمت میں ہمیشہ پیش پیش رہا۔
لیکن آج حالات اتنے بدل چکے ہیں کہ 2014 میں غزہ پٹی میں اسرائیلی درندگی اور سیکڑوں بے گناہ فلسطینی باشندوں کی ہلاکت کے خلاف جب راجیہ سبھا میں اپوزیشن پارٹیوں نے اسرائیل کی مذمت کے لیے ایک قرار داد پیش کی تو حکومت نے اسے منظور نہیں ہونے دیا اور یہ کہہ کر اس کی مخالفت کی کہ ہندوستان کے دونوں ملکوں کے ساتھ مساوی رشتے ہیں لہٰذا وہ اسرائیل کی مذمت کرکے اپنے رشتے خراب نہیں کرنا چاہتا۔ آج اسرائیل کے ساتھ ہندوستان کے رشتے سفارتی حدود کو پار کرکے دفاعی میدان میں غیر معمولی تعاون کے دور میں داخل ہوچکے ہیں۔ خفیہ معلومات کے تبادلے میں ہندوستان اسرائیل کے ساتھ غیر معمولی اشتراک کررہا ہے۔ وادیٔ کشمیر میں جاری ’’علیحدگی پسندی‘‘ کی تحریک کو کچلنے میں بھی اسرائیلی تعاون مسلسل بڑھ رہا ہے۔ حکمراں طبقے کا خیال ہے کہ اسرائیل اور ہندوستان دونوں ہی کو ایک ہی قسم کی دہشت گردی کا چیلنج درپیش ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اسرائیلی وزیراعظم کے روبرو بھی اسی بات کو دہرایا ہے۔ ہندوستان کا خیال ہے کہ اسرائیل کو ’اسلامی دہشت گردی‘ سے نپٹنے کا خاص تجربہ ہے اور ہندوستان اس معاملے میں پاکستان اور کشمیر کے محاذ پر اسرائیل سے مدد لے سکتا ہے۔ ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان رشتوں میں گرمجوشی کا اصل سبب یہ ہے کہ سنگھ پریوار اور صہیونی ریاست کے درمیان قدیم رشتے ہیں۔ سنگھ پریوار کے کئی وفود اسرائیل کا دورہ کرکے ’فیضیاب‘ ہوچکے ہیں۔ گزشتہ چند سال کے دوران ہندتو اور صہیونیت کے درمیان مماثلتیں تلاش کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔
جے دیپ پربھو جو ایک آن لائن میگزین’ ’سوراجیہ‘‘ کے ادارتی مشیر ہیں، کہتے ہیں کہ ہندو اور یہودیوں میں تین بنیادی مماثلتیں موجود ہیں۔
باقی صفحہ9پر
دونوں ہی نظریات بے وطنی کا کرب جھیل چکے ہیں اور دونوں ہی کا دشمن (اسلام) ایک ہے اور دونوں نے سیاسی ہدف حاصل کرنے کے لیے تہذیبی احیاء کا سہارا لیا ہے۔ جے دیپ پربھو کے مطابق صہیونی تحریک یورپ میں انیسویں صدی میں شروع ہوئی جس کا مقصد یورپ اور دوسری جگہوں میں قیام پزیر یہودیوں کو ان کے اپنے ملک اسرائیل واپس بھیجنا تھا۔ یہودیوں کا اپنا کوئی وطن نہیں تھا اور انہیں یورپ کے الگ الگ ملکوں میں رہنا پڑ رہا تھا، جہاں ان کے لیے یہودیت کومحفوظ رکھنا مشکل ہورہا تھا۔ بعد میں یعنی 1948 میں یہودیوں کے لیے الگ ملک اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔ جے دیپ پربھو کے مطابق ہندتو نے اپنا سیاسی مقصد اب تک پورا نہیں کیا ہے یعنی ہندوستان کو اب تک ہندو راشٹر نہیں بنایاگیا ہے۔ اس خیال کے برعکس ہندتو پر کام کرنے والے معروف دانشور جیوتی مریے شرما، جنہوں نے اس نظریے پر کتابیں بھی لکھی ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ہندتو اور صہیونیت میں مماثلت تو ہے لیکن وہ منفی ہے۔ انہوں نے دو مماثلتوں کا ذکر کیا۔ اول اکثریت کی اجارہ داری اور دوسرا عدم تحفظ کا احساس۔ شرما کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی طرح ہی اسرائیل میں بھی اکثریت ہر چیز اپنے طریقے سے چلانا چاہتی ہے۔ دونوں نظریات اس پر یقین رکھتے ہیں کہ لوگوں کے دل اور دماغ میں ایک قسم کے عدم تحفظ کا جذبہ پیدا کردیا جائے جس سے پھر آپ ان سے کچھ بھی کرواسکتے ہیں۔
ان کے مطابق اسرائیل تو پھر بھی خود کو غیر محفوظ محسوس کرسکتا ہے کیونکہ وہ فلسطین اور دوسرے مخالف ملکوں سے گھرا ہوا ہے لیکن ہندوستان کو غیر محفوظ تصور کرنے کا کوئی سبب نظر نہیں آتا۔