محمد شہزاد
’’مرحوم‘‘ میاں محمد نواز شریف کے اوصاف کے بارے میں کیا لکھوں! بس اتنا عرض ہے کہ جتنا بھی لکھا جائے اتنا ہی کم۔ بہت ہی سادہ، معصوم اور بھولے بھالے انسان تھے۔ عاجزی کا یہ عالم کہ کبھی بھی بیل کو یہ نہیں کہا کہ آ مجھے مار۔ بیل کو تکلیف دینا گوارا نہ تھا۔ اس لیے خود ہی اس کے سامنے کھڑے ہو جاتے اور کہتے لو جی بھر کے مجھے مار لو۔ بیل بھی بیچارا اللہ میاں کی گائے۔ منہ پھر لیتا۔ لیکن یہ مرنے پر بضد۔ لال کپڑا لے کر کھڑے ہو جاتے۔ لہرا لہرا کر اسے اشتعال دلاتے اور کہتے ارے میاں مارو ناں۔ مارتے کیوں نہیں۔ اب بیل تو بیل ہے۔ اچھال دیتا میاں صاحب کو سینگوں پر۔ پھر یہ سارے زمانے سے بیل کی شکایت کرتے پھرتے کہ دیکھیں جی ہمارا بیل ہم ہی کو سینگ لات رسید کرتا ہے۔
یہ میاں جی کی تیسری شرم ناک معزولی ہے۔ اگرعقل سلیم استعمال کر لیتے تو تینوں معزولیوں سے بچ سکتے تھے۔ مثلاً پہلی بار یہ وزیرِاعظم 1993 میں بنے۔ سب کو معلوم تھا کہ اسلامی جمہوری اتحاد کس نے بنایا۔ کس نے انہیں پیسے دیے اور وزارت ِ عظمیٰ کے گدی پر بٹھایا۔ نہیں معلوم تھا تو صرف انہیں! ان کے خیال میں عوام نے انہیں وزیرِ اعظم بنایا تھا۔ اور یہ وزیرِاعظم والے مکالمے بھی بولنا شروع ہو گئے۔ بس پھرکیا تھا۔ صدرغلام اسحق خان نے ان کی حکومت کو چلتا کیا۔ چوںکہ یہ انتہائی سادہ تھے۔ سمجھ ہی نہ سکے کہ نقش کو کس کی شوخی تحریر کا فریادی ہونا چاہیے۔ یہ عدالت ِ عظمیٰ پہنچ گئے انصاف انصاف کی دہائی دیتے۔ عدالت نے انصاف بھی کر دیا۔ ان کی حکومت مئی 1993 میں بحال کر دی گئی۔ پھر کیا ہوا؟ اس وقت کے آرمی چیف جنرل وحید کاکڑ نے ان سے استعفا لے لیا اور ساتھ ہی اسحق خان کو بھی قصہ پارینہ بنا دیا۔
کیسے سادہ ہیں۔ بھول ہی گئے کہ فوج کے اسٹریچر پرآئے تھے! خیر فوج ہی کے اسٹریچر پر گئے۔ اگر ہمت ہوتی تو نہ دیتے استعفا۔ ڈٹ جاتے۔ کرتے ایک پریس کانفرنس اور بتا دیتے عوام کو کہ سازش ہوئی ہے۔ لیتے نام سازشی کا! مگر ایسا وہی کر سکتے ہیں جن کے دامن صاف ہوں!
یہ ماننا پڑتا ہے کہ قسمت کے سکندر ہیں۔ قدرت نے 97 کے انتخابات میں دو تہائی سے بھی زیادہ اکثریت دلائی۔ بس یہ بھاری مینڈیٹ ہی ان کے گلے کا طوق بن گیا۔ امیرالمومنین بننے جا رہے تھے مگر جیل پہنچا دیے گئے۔ مگر کسی کی غلطی سے نہیں۔ اپنی سادہ طبیعت کی بدولت۔ سب ٹھیک ٹھاک جا رہا تھا۔ نہ جانے کیا سوجھی بیٹھے بٹھائے کہ جنرل مشرف کو برطرف کر دیا۔ اور وہ بھی اس وقت جب مشرف کا طیارہ ہوا میں چکر پر چکر لگا رہا تھا۔ ایندھن ختم ہونے کو تھا اور میاں جی اسے زمین پر اترنے نہیں دے رہے تھے۔ بس پھر کیا تھا۔ بیل نے فضاء ہی سے لات رسید کی۔ پہلے میاں جی کو ڈنڈا ڈولی کیا پھر زمین پر اترا۔
بھاری مینڈیٹ کے خمار میں چھلانگ لگا کر اڑتا ہوا تیر پکڑ کر اپنی ہی کمر میں پیوست کرنے کے فن میں اپنے میاں جی ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ چوںکہ بنیادی طور پر مکمل طور پر سادے ہیں اسی لیے اللہ میاں مہربانی کرتے ہیں۔ اپنی پاک سرزمین سے فرشتے بھیجے اور جنرل مشرف کے چنگل سے انہیں آزاد کروا لیا۔ ویسے اچھا تھا کہ سادے تھے۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ذہین ہوتے تو منزل پھانسی گھاٹ ہوتی۔ مگر اللہ میاں کی پاک سرزمین پر جاتے جاتے بھی سادگی میں ایک بھول کر بیٹھے۔ مشرف کے ساتھ ایک تحریری معاہدہ کر بیٹھے جس کے تحت یہ دس سال سے پہلے پاکستان واپس نہیں آ سکتے تھے۔ ان کی صاحب زادی کو اس وقت ٹویٹ کرنا نہیں آتا تھا۔ ورنہ وہ یقینا یہ ٹویٹ کرتیں کہ جو مرد ہوتا ہے وہ بھاگتا نہیں! لاحول ولاقوۃ ہمارا یہ مطلب نہیں کہ یہ مرد نہیں کیوںکہ یہ مع اہل و اعیال جدہ بھاگ گئے تھے اپنے تمام ساتھیوں کو بتائے بغیر۔ مطلب یہ ہے کہ اس وقت چوںکہ ٹویٹر ایجاد نہیں ہوا تھا لہٰذا ان کا دم دبا کر بھاگنا بالکل جائز تھا۔ مگر اب ٹھیک نہیں!
انہیں بھولنے کی بیماری ہے۔ یہ پانچ سال بعد ہی بن بلائے پاکستان واپس آ گئے۔ اور انکاری ہو گئے کہ کوئی تحریری معاہدہ رقم کیا تھا مشرف کے ساتھ۔ اللہ میاں نے پھر کرم کیا۔ ایک فرشتہ روانہ کیا سعودی شہزادے کے روپ میں۔ اس کے ہاتھ میں اسی معاہدے کی ایک نقل تھی۔ اس نے اسلام آباد آ کر وہ ساری دنیا کے سامنے لہرائی اور انہیں اپنے ساتھ واپس لے گیا۔ بھلے وقتوں میں یہ جمناسٹک کیا کرتے تھے۔ اسی مہارت کا مظاہرہ کیا۔ فوراً قلابازی کھائی اور کہا کہ معاہدہ تو ہوا تھا مگر دس نہیں پانچ سال کے لیے! کیا کریں معصوم ہیں! کل لوگ بھی کہہ رہے تھے: یا اللہ یا رسول نواز شریف بے قصور!
اگر اصول والے ہوتے تو ڈٹ جاتے مشرف کے آگے اور چڑھ جاتے پھانسی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سیاست دان کبھی نہیں رہے۔ شروع سے ہی بنیے تھے۔ جان بچی سو لاکھوں پائے کے مصداق پھر بھاگ گئے۔ مگر ایک بات تو ماننا پڑے گی۔ ہیں غالب لے پیروکار۔ گالیاں کھا کر بھی بے مزہ نہیں ہوتے!
اب کے پاناما میں پھنسے۔ چودھری نثار ایسے جانثار دوستوں نے لاکھ سمجھایا کہ میاں جی عزت سے استعفا دے دو۔ مگر میاں جی نے تنک کر کہا کہ کیا بکتے ہو! عزت تو آنی جانی شے ہے۔ وزارت ِ عظمیٰ کی گدی کوئی روز روز ملتی ہے؟ روز ننگے ہوتے تھے مگر درباری یہ ہی کہتے ارے حضور کیا جچ رہی ہے آپ پر پوشاک وزارت ِ عظمیٰ کی۔ تنگ آ کر چودھری صاحب نے ہی کہہ دیا کہ بادشاہ تو ننگا ہے! بہت برا لگا انہیں۔ مگر سادہ ہیں ناں۔ بولے یار سب کے سامنے کیوں کہا مجھے ننگا! اکیلے میں کہنا تھا نہ!
مزے کی بات تو یہ ہے کہ چودھری صاحب کے ننگا کہنے کے باوجود بھی بادشاہ کا لباس زیب تن کیے رہے۔
بھئی باقی درباری جو کہہ رہے تھے کہ حضور کس کی باتوں میں آ گئے۔ کتنے وجہیہ لگتے ہیں آپ اس لباس میں! بس ننگے پھرتے رہے اور یہ ہی راگ الاپتے رہے کہ سازش ہو رہی ہے۔ پاناما کیس کی شروعات میں یہ سازش جمہوریت کے خلاف تھی۔ جوں جوں شکنجہ تنگ ہوتا رہا سازش کے رنگ بھی بدلتے گئے۔ پھر یہ سازش نواز شریف کے خلاف ہو گئی۔ شکنجہ مزید تنگ ہوا تو جمائی راجہ نے فرمایا کہ سازش دو قومی نظریے کے خلاف ہو رہی ہے۔ اچانک ایک اور درباری اٹھا اور کہا کہ بادشاہ تو ننگا ہے۔ اب کی بار خواجہ آصف نے سچ بولا۔ 20 جولائی کو بیان دیا کہ سازش نہ تو فوج کر رہی ہے اور نہ ہی عدلیہ۔ تو پھر کون ہے بھائی؟ یہود یا ہنود، راء، موساد، کے جی بی، سی آئی اے، اسرائیل، بھارت؟ کون ہے؟ کوئی نہیں تھا۔ یہ خود ہی سادگی میں اپنے ہی خلاف سازش کر بیٹھے۔ نثار۔ نواز۔ نون لیگ کا 35 سال پرانا یارانہ ٹوٹ گیا۔ چودھری نثار نے حتمی فیصلہ آنے سے چند گھنٹے قبل پریس کانفرنس کر کے لنکا ڈھا دی۔ کہا کہ میاں جی کے ارد گرد کے خوشامدی ہی انہیں لے ڈوبے۔
اب میاں جی کو کون سمجھائے کہ اب بھی وقت ہے۔ عدالت کے فیصلے کو قبول کر لو۔ آپ کا وقت اب ختم۔ پارٹی لوگوں کی امانت ہے آپ کی ذاتی جاگیر نہیں۔ غلام اسحاق کی طرح گوشہ گم نامی اختیار کر لو۔ پارٹی کے رہنماؤں کو یہ نصیحت ضرور کرتے جانا کہ اسے پارٹی ہی رہنے دینا۔ ذاتی جاگیر نہ بنانا۔