جدہ میں دو تین اہم عشائیے بھی ہوئے … ایک ارسلان ہاشمی کے گھر اور ایک مسرت خلیل کے گھر ۔ ارسلان ہاشمی نے چھے ماہ پرانا گوشت کھلا دیا۔ آپ بھی کہیں گے کہ یہ شکایت کرنے کی کیا تک تھی… لیکن اگر یہ ایک سال پرانا بھی ہوتا تو ہم شوق سے کھاتے… یہ گھوڑے کا گوشت تھا جو ازبکستان سے آنے والے لوگوں سے انہوں نے منگوایا تھا اور دو ماہ قبل ہماری آمد کی اطلاع پا کر اسے محفوظ رکھا ہوا تھا ، کھانے کھا کھا کر کھانوں سے رغبت کم ہو گئی تھی اس لیے شاید ہم اس سے اچھی طرح لطف اندوز نہ ہو سکے ۔ لیکن پوری دعوت عرب طرز کی تھی ۔ پہلے مشروب ، پھر مٹھائیاں اور خشک میوہ جات پھر سعودی قہوہ پھر کھانا… اور آخرمیں پھر سعودی قہوہ… دوسرا عشائیہ مسرت خلیل کے گھر تھا اس کی خاص بات یہ تھی کہ میز بان 35 کلو میٹر دور سے ہمیں لینے آئے اور چھوڑنے بھی آئے ۔ جب ان کے گھر پہنچے تو مسرت خلیل کا کہنا تھا کہ آج آپ کی وجہ سے ہمارے تینوں بیٹے اور دو بہنوئی سب جمع ہوئے ہیں سب پاکستانی ہیں مسرت خلیل کی اہلیہ سعودی ہیں بچے بھی سعودی ہیں۔ پرانے ساتھیوں میں جمیل راٹھور بھی ہیں انہوں نے اپنے گھر میں کھانے کا اہتمام کیا ۔ یہ وہ کھانا تھا جو امیر محمد خان اپنے گھر یا ہوٹل میں کرنا چاہتے تھے ۔ لیکن جمیل راٹھور نے اپنی بیماری او رگھر والوں کی بیماری کے باوجود اپنے گھر اہتمام کیا یہاں بھی جدہ میں مقیم صحافیوں سے ملاقات رہی مسرت خلیل نے یہاں بھی سوّاک کا فریضہ انجام دیا ۔
(جاری ہے)