سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف عدالت عظمیٰ سے نا اہلی کے بعد بھی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کر رہے ہیں اسی قسم کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ میں کرپشن کی وجہ سے نا اہل نہیں ہوا ۔ پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ہر آئینی اور قانونی ذریعہ اختیار کرے گی شاید اس مقصد کے لیے نظر ثانی کی اپیل دائر کرنے کی تیاریاںبھی کی جا رہی ہیں لیکن ساتھ ساتھ عدالت ججوں ، مقدمے اور فیصلے کے خلاف مہم بھی زور پکڑتی جار ہی ہے ۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلستان اور آزاد کشمیر کے وزیر اعظم نے تو حد کر دی … گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ کہتے ہیں کہ نواز شریف کی نا اہلی بغاوت ہے ۔ راجا فاروق حیدر اور حافظ حفیظ الرحمن نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ نواز شریف کی تذلیل کی گئی ۔ فیئر ٹرائل نہیں تھا ۔ فیصلہ فکسڈ تھا… لیکن یہ سب باتیں تو کہی جاتی ہیں اصل بات تو یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے فیصلے کو بغاوت کیسے قرار دے دیا ۔ اسے غلط کہا جا سکتا ہے ۔ اُس پر اعتراضات کیے جا سکتے ہیں لیکن فیصلے کو بغاوت قرار دینا انتہائی نا مناسب ہے ۔ گویا براہ راست عدلیہ پر غداری کا الزام لگا دیا گیا ہے ۔ اس سے بھی بڑھ کرراجا فاروق حیدر نے بات کر دی کہتے ہیں کہ اب سوچیں گے کہ کس ملک سے الحاق کرنا ہے ۔ کیا یہ بھی بغاوت نہیں پوری تحریک آزادی کشمیر سے غداری کا کھلم کھلا اعلان نہیں… اس اعلان کے بعد کم از کم آزادکشمیر حکومت کو ختم کیا جانا چاہیے ۔ راجا صاحب صرف مسلم لیگ سے تعلق کی بنیاد پر یہ بات کہہ رہے ہیں کہ اب یہ سوچیں گے کہ کس ملک سے الحاق کرنا ہے ۔ ان کے خیال میں نواز شریف پاکستان کا نام ہے نواز شریف کے خلاف غلط فیصلہ بھی آ گیا تو کون سی قیامت آ گئی… غلط فیصلے تو پاکستانی عدلیہ کی روایت ہیں لیکن کیا راجا صاحب وضاحت کرسکیں گے کہ کشمیر کے الحاق کے بارے میں وہ کیا سوچ رہے ہیں ۔ چین یا نیپال سے الحاق کریں گے یا بھوٹان و بنگلا دیش سے ؟… ظاہری بات ہے انہوں نے کھل کر بھارت نوازی کی ہے اور میاں نواز شریف کے خلاف بھارت نوازی کے الزام کی تصدیق ہو سکتی ہے ۔ مسلم لیگ آج کل جس ذہنی اور سیاسی خلفشار میں ہے ۔ اس میں ایسی باتیں کرنا یا ایسے دھمکی آمیز بیانات دینا اس پارٹی کی سوچ کی عکاسی ہیں ۔ اگرچہ ان کی مشترکہ پریس کانفرنس میں بعض نکات بڑی اہمیت کے حامل ہیں لیکن فیصلے کو بغاوت قرار دینے اور کشمیر کے الحاق کے بارے میں قومی پالیسی کے بر خلاف بات کر کے ساری پریس کانفرنس کو بے وزن کر دیا گیا ۔ انہوں نے یہ درست کہا ہے کہ کسی منصف میں جرأ ت ہے تو پرویز مشرف کا ٹرائل کر کے دکھائے ۔ شاید نواز شریف کے جرائم میں سے ایک یہ بھی ہو کہ ان کے دور میں سابق جرنیل کو عدالت میں طلب کیا گیا ۔ مقدمہ چلایا گیا اور بقول مشرف کے حامیوں کے … ’’تذلیل ‘‘ کی گئی ۔ یہ مطالبہ یا نکتہ بجا ہے … اور بعض لوگوں کا خیال ہے کہ نواز شریف کو بالواسطہ پیغام دیا گیا ہے کہ آئندہ کوئی جرنیل کا احتساب کرنے یا مقدمہ چلانے کا سوچے بھی نہیں… اس سے قطع نظر میاں نواز شریف نے اجلاس سے خطاب میں بڑے فخریہ انداز میں کہا ہے کہ میں کرپشن پر نا اہل نہیں ہوا ہوں… ان سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ نا اہل تو ہوئے ہیں کیا وہ سب غلط ہے کیا عدالت نے غلط کیا ہے… انہوں نے اس روایتی سیاسی رویے کا اظہار کیا کہ میں نہیں تو ملک نہیں کہتے ہیں کہ وزیر اعظم ایسے ہی جاتے رہے تو ڈر ہے کہ ملک کو کوئی حادثہ نہ ہو جائے ۔ انہوں نے مارشل لاء سے ڈراتے ہوئے کہا کہ اس کے ذمے دار چند ہوتے ہیں،فوج نہیں… نواز شریف صاحب کہتے ہیں کہ حالات نے نظریاتی بنا دیا… لیکن وہ اور ان کی پوری سیاست یہ نہیں بتا سکتی کہ ان کا نظریہ کیا ہے اور وہ کس قسم کے نظریات کے پیرو کار ہیں ۔ اس سارے عمل کے بعد بھی انہیں کوئی پچھتاوا نہیں ۔اس سے بڑھ کر یہ بات ہے کہ پچھتاوا تو قوم کو بھی نہیں ہے ۔ بار بار کرپٹ ثابت ہونے والوں کو حکمران مسلط کرا لیتے ہیں ۔ میاں صاحب کو پھر بھلا کیوں پچھتاوا ہو گا ۔ وہ اس فیصلے سے تین دن بعد بھی کہہ رہے ہیں کہ کسی کو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ مجھے نا اہل کیوں قرار دیا گیا … خود میاں صاحب بھی دھمکیوں پر اُتر آئے ہیں فوج اور مارشل لاء کی دھمکی اور ملک کو حادثے کا شکار ہونے کا خوف ظاہر کر کے وہ کیا کہنا چاہتے ہیں کہ اگر نواز شریف وزیر اعظم نہیں رہے تو ملک حادثے کا شکار ہو جائے گا ۔ ایک زمانے میں یہی ڈراوے دیے جاتے تھے ایوب خان نہیں رہے تو ملک نہیں رہے گا ۔ ضیاء الحق نہیں رہے تو ملک نہیں رہے گا ۔ بھٹو او رپھر بے نظیر نہیں رہیں تو ملک نہیں رہے گا یہی بات پرویز مشرف نے بھی کہی تھی… لیکن یہ سب نہیں رہے ملک تو باقی ہے ۔ بات یہاں بھی ختم نہیں ہو جاتی دھمکیاں دینے کا سلسلہ آگے بھی چل رہا ہے نامزد وزیر اعظم نے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے سے پہلے ہی دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں کہ بہتان تراشی کرنے والے سزا کے لیے تیار رہیں ۔ ایک نہیں دس ریفرنس میرے خلاف لے آئو ۔ یہ دھمکی… یہ بات واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ آنے والے دنوں میں عبوری وزیر اعظم انتقامی کارروائیاں کریں گے اور 45دنوں کے دوران ا پنے خلاف تمام ریفرنسز کا صفایا کر دیں گے اور عین ممکن ہے کہ نیب کو بھی مشکل میں ڈالنے کی کوشش کی جائے… نواز شریف کہتے ہیں کہ وزیر اعظم ایسے ہی جاتے رہے تو ملک کو حادثہ ہو سکتا ہے ۔ لیکن قوم سوال کرنے میں حق بجانب ہے کہ ایسے ہی وزیر اعظم آتے رہے تو ملک کو حادثہ ہو سکتا ہے ۔ آنے سے پہلے ہی دھمکیاں دی جار ہی ہیں ۔ کیا اس معاملے میں بھی عدالت مداخلت کرے عدالت شاہد خاقان عباسی کے بیان کا بھی نوٹس لے جن کی آمد سے پی آئی اے کو مزید خطرات لا حق ہو گئے ہیں جبکہ گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ اورآزاد کشمیر کے وزیر اعظم کے خلاف تو با قاعدہ ریفرنس داخل ہونے چاہئیں ۔ ان دونوں نے تو کھلی بغاوت کا مظاہرہ کیا ہے ۔ اگلے دن ان کی وضاحتی پریس کانفرنس ضرور ہوئی ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس ریکارڈنگ کا کیا کریں گے جو نیوز ایجنسی کے پاس محفوظ ہے ۔ اگر دیکھا جائے تو صورتحال مزید خراب ہور ہی ہے ۔ اداروں سے ٹکرائو کے خدشات بڑھتے جار ہے ہیں ۔ شاہد خاقان عباسی 45 روز میں یقیناً’’بہتان‘‘ لگانے والوں کے خلاف کارروائی کریں گے اور جس سزا کی انہوں نے دھمکی دی ہے وہ ملازمتوں سے برخاستگی سے لے کر جوابی مقدموں تک سب کچھ ہو سکتی ہے ۔ پھر میاں صاحب اس پر کیا کہیں گے کہ فوجی مداخلت کا ذمے دار کون ہے ۔ ان کی یہ منطق بھی خوب ہے کہ مارشل لاء کی ذمے دار فوج نہیں ہوتی ۔ یہ جملہ خود فوج پر الزام ہے … فوج اتنا بڑا اقدام دوسروں کی وجہ سے نہیں کرتی… بہر حال جو صورتحال پیدا ہو رہی ہے وہ کسی بھی طور ملک کے لیے مناسب نہیں ۔ سیاسی لڑائی کو اداروں کی لڑائی نہ بنایا جائے ۔ ورنہ حادثہ ہو گیا تو سبب کا تعین کبھی نہیں ہو گا ۔